آج کا بلوچستان امید و آس سے لبریز نظر آتا ہے، لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ )سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کہا ہے کہ غیر ملکی ہاتھ بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ہوا دے رہے ہیں، شرپسندوں کو نقدی اور ہتھیار دے رہے ہیں، جس کا بنیادی اور واحد مقصد پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے، مودی کے اپنے اعترافات کے بعد اب یہ بات کوئی راز نہیں رہ گئی کہ بھارت نے بلوچستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے افغانستان میں اپنے پورے وسائل جھونک دیئے ہیں۔
زرائع کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا کے منتخب سینئر نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض بارہویں کور کی کمانڈ کررہے ہیں، یہ کور ملک کے تقریباً 44 فیصد رقبے کی نگرانی اور دیکھ بھال کر رہی ہے جو پورے بلوچستان پر محیط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں آپ میں سے ہر کسی کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ صوبے کے طول و عرض میں گھوم جائیں اور خود دیکھیں کہ ہم نے کامیابی کے ساتھ تمام شرپسندوں کی قیادت کا خاتمہ کردیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں اور علیحدگی پسند باغیوں کے سرغنوں کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔ اب ان کا ہماری سرزمین پر وجود باقی نہیں رہ گیا۔ آج بلوچستان امید و آس سے لبریز نظر آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب صرف وہی لوگ باقی رہ گئے ہیں، جو ملک سے باہر افغانستان میں بیٹھے ہیں۔ کمانڈر نے اعلان کیا کہ جو رہنما ملک سے باہر بیٹھے ہیں، انہیں ہم پاکستان میں خوش آمدید کہیں گے کہ وہ آئین پاکستان کے اندر سیاسی عمل میں حصہ لیں۔ ”جو کوئی بھی ہتھیار رکھتا ہے اور پاکستان کے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہتا ہے اسے سیاسی عمل میں آزادانہ حصہ لینے کی پوری آزادی ہے۔ لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ یہ لوگ کتنے ہر دلعزیز ہیں“۔
جنرل عامر ریاض نے بھارت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مکالمے کا آغاز کرانے میں تعاون کرکے وہاں امن و امان لانے کی مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ ”میں خود ایسی بیشتر کوششوں کا حصہ تھا اور میں آپ کو ایک سپاہی کی حیثیت سے یہ زبان دیتا ہوں کہ پاکستان حقیقی معنوں میں یہ خواہش رکھتا ہے کہ فریقین ایک پرامن تصفیہ پر پہنچ جائیں تاکہ تشدد کی جگہ ایک معمول کا سیاسی عمل لے سکے تاہم بعض طاقتیں خطے میں امن نہیں چاہتیں۔ اگر افغانستان کے دکھوں کا مداوا جنگ میں ہوتا تو نیٹو بہت پہلے یہ مقصد افغانستان میں اپنی بھرپور موجودگی میں ہی حاصل کرچکا ہوتا۔ افغانستان کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ اس خطے کیلئے بھی ایک خود مختار اور ذمے دار ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان کو امید تھی کہ افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت دونوں ملکوں میں اعتماد کے فقدان کو دور کرے گی لیکن یہ امید اب مایوسی کا روپ دھار چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”عمل و کردار الفاظ سے زیادہ بلند آہنگ سے بولتا ہے“۔ کمانڈر نے ریاست قلات کے پاکستان سے الحاق کے معاملے میں پائے جانے والے تاریخی مغالطوں پر بھی بات کی اور کہا کہ 47ء کا اعلان آزادی ریاستوں کو یہ اختیار نہیں دیتا تھا کہ وہ اپنی آزادانہ حیثیت میں کام کریں، انہیں صرف یہ حق تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں۔ 562 ریاستوں میں سے 13 نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیا۔ بلوچستان میں خاران، لسبیلہ، مکران اور قلات چار ایسی ریاستیں تھیں جنہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنا پسند کیا جبکہ جو علاقہ برٹش بلوچستان کہلاتا تھا وہ خودکار طریقے سے پاکستان کا حصہ بنا۔ اس لئے یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ریاست قلات بلوچستان کے زیادہ تر رقبے پر مشتمل تھی، بلکہ یہ ان بہت سی ریاستوں میں سے ایک ریاست تھی جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان اور بلوچستان کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کمانڈر سدرن کمانڈ نے صاف شفاف انداز میں کہا: ”پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان اور بلوچستان کیلئے گیم چینجر ہے، گوادر پورٹ دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں سے ایک ہوگی اس کی لمبائی 52 کلومیٹر ہوگی اور اس میں تقریباً 160 برتھیں ہوں گی جن میں سے نصف (80) گہرے پانی کے جہازوں کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں گی۔ دبئی کی بندرگاہ میں 67 برتھیں ہیں جبکہ چاہ بہار (ایران) کی بندرگاہ میں صرف 10 برتھیں ہوںگی۔ اقتصادی ترقی کے مواقع بے شمار ہیں اور جب سی پیک کا مغربی روٹ تعمیر ہو جائے گا تو یہ بلوچستان کے 13 اضلاع میںسے گزرے گا جو اپنے جلو میں ان سب کیلئے خوشحالی لائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس روٹ کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان کی جانب سے خصوصی اقتصادی زون بنائے جانے کے زبردست مواقع موجود ہیں۔ ہمارے دشمن، ہمارے قومی اہمیت کے اس منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور اس ضمن میں ہماری صفوں میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں“۔ یہ ہماری قومی ذمے داری ہے کہ ہم وقت کی نزاکتوں کو سمجھیں اور بطور ایک قوم متحد ہوکر کام کریں اور مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
کمانڈر سدرن کمانڈ کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبے اگر مکمل ہوگئے تو پاکستان کسی غیر ملکی طاقت پر انحصار کا محتاج نہیں رہے گا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا۔ ہمارے دشمنوں کو اس حقیقت کا پوری طرح ادراک ہے اور وہ اس کے بہت زیادہ خلاف بھی اسی لئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کمانڈر نے کہا کہ اگرچہ بہتری کی گنجائش تو ہر وقت ہوتی ہے لیکن تمام بڑی بڑی سڑکوں پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ یہ تمام منصوبے بغیر تاخیر کے مکمل کئے جائیں گے کیونکہ ہر دن قیمتی ہے۔ انہوں نے اس خیال سے اتفاق کیا کہ تمام متعلقہ سٹیک ہولڈروں پر مشتمل ایک خصوصی مانیٹرنگ باڈی بننی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ شفاف طریقے سے ایسی کوششیں کی جائیں کہ ایسی استعداد کار پیدا ہو جائے جس سے کام لے کر ان وسائل سے مستفید ہوا جاسکے۔ بلوچستان کے لوگوں کا حق ہے کہ ریاست انہیں زیادہ حقوق دے۔ بلوچستان کے لوگ محب وطن اور وطن دوست ہیں انہیں بجلی، طبی سہولتوں اور تعلیم جیسی زندگی کی بنیادی ضرورتیں زیادہ تیزی کے ساتھ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملازمت کیلئے مواقع پیدا کرنے کیلئے نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ شرپسندوں کے خلاف کامیاب فوجی آپریشن کے نتیجے میں بہتری کی جو گنجائش پیدا ہوئی ہے اس کو پائیدار سیاسی اور ترقیاتی حل نکال کر زیادہ محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ ملک کی سیاسی قیادت کو ملک کے سیاسی ڈھانچے میں بلوچستان کی آواز کو زیادہ بہتر کرنے کے طریقوں پر غور کرنا چاہئے۔ ایسے اقدامات اس لئے بھی ضروری ہیں تاکہ بلوچ عوام کو یقین دلایا جاسکے کہ ان کی رائے کو وزن دیا جا رہا ہے اور سیاسی فیصلے کرتے وقت ان کی رائے کو اہمیت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک مضبوط ریاست جو کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرسکے وہ ہوتی ہے جس کے اوپر ایک متحرک اور پرجوش سیاسی قیادت موجود ہو۔ ریاست کے نظریئے میں رچی بسی ہو اور ایک مضبوط سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ موجود ہو جو فوج، بیورو کریسی اور سول سوسائٹی پر مشتمل ہو، ایسی اقوام کبھی کسی بیرونی خطرے سے خوفزدہ نہیں ہوتیں اور ان میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کے مقابلے میں چٹان کی طرح کھڑی ہوسکیں۔