تکفیری دہشتگردوں نے 2016ء میں 58 اہل تشیع کو شہید کیا، علی احمر
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سید علی احمر زیدی نے سال 2016ء کے دوران رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں کے اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ سال تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں جاری شیعہ نسل کشی میں 58 ایسے افراد شہید ہوئے، جن کا تعلق مکتب تشیع سے تھا۔ ان افراد نے فائرنگ اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں اپنی جانیں گنوائیں۔ گذشتہ سال یہ تعداد 256 تھی، تاہم اس سال اس میں نمایاں کمی آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے بہترین نتائج کا حصول اور نیشنل ایکشن پلان پر کسی حد تک عمل درآمد ہے۔ انہوں نے کہا کہ عسکری اداروں نے بہترین حکمت عملی کو برؤے کار لاتے ہوئے ان گروہوں کو پسپا کیا ہے، جو قومی مفاد کے منافی سرگرمیوں میں عملی طور پر مصروف تھے۔ یہ عناصر نفرت، انتشار اور مذہبی عصبیت کے فروغ کے ذریعے ملک کے مختلف مسالک کو دست و گریبان کرنے کے ایجنڈے پر تھے۔ ان کی شکست کے بعد دہشت گردوں کی عملی کارروائیوں میں کمی آئی ہے، جو لائق تحسین ہے، تاہم تکفیری فکر کو کالعدم جماعتیں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے ابھی تک پروان چڑھا رہی ہیں، جو وطن عزیز کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
علی احمر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اس آلودہ فکر کا خاتمہ بےحد ضروری ہے۔ ان مدارس اور کالعدم جماعتوں کے خلاف جب تک کارروائی نہیں کی جاتی، جو نفرت کا نصاب پڑھا کر دہشت گردوں میں اضافہ کر رہے ہیں، تب تک اس ملک میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ سیاسی عمل سے ایسے عناصر کو دور رکھا جائے۔ اگر حکومتی شخصیات کی طرف سے تکفیری گروہوں سے نرمی کا رویہ برتا جائے تو اسے ملکی سلامتی و استحکام کے منافی سمجھتے ہوئے مقتدر اداروں کو نوٹس لینا چاہییے، تاکہ انہیں کسی بھی صورت پنپنے کا موقعہ نہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ سال نو کے آغاز میں سب نے مل کر اس عزم کا اعادہ کرنا ہوگا کہ وطن عزیز کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے قوم کو بہت ساری توقعات ہیں۔ ان کو درپیش مختلف چیلنجز میں دہشت گردی سرفہرست ہے۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے بےرحمانہ آپریشن اور موثر حکمت عملی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔