انقلاب اسلامی ایران اور وحدت اسلامی
تحریر: تصور حسین شہزاد
ایرانی قوم انقلاب اسلامی کی 38ویں سالگرہ منا رہی ہے۔ یہ سالگرہ ایک ایسے وقت میں منائی جا رہی ہے، جب امریکہ کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیوں کیساتھ ساتھ امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایران بھی ان 7 مسلم ممالک میں شامل ہے جن پر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی ہے۔ یہ وہ 7 مسلمان ملک ہیں، جن پر پہلے امریکہ خود حملے کرچکا ہے یا جن کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے، یا رہا ہے۔ اسی وجہ سے اب امریکہ کو خوف لاحق ہے کہ کہیں یہ ممالک امریکہ سے بدلہ نہ لے لیں، جس کے باعث ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ادھر ایرانی قوم نے ٹرمپ کی ان پابندیوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دیا ہے کہ وہ بھی امریکہ جانا پسند نہیں کرتے۔ امریکہ سے ایرانی قوم کو شدید نفرت ہے۔ ایران میں ہر نماز کے بعد ”مرد باد امریکہ“ اور ”مردہ باد اسرائیل“ کے فلک شگاف نعرے بتاتے ہیں امریکہ و اسرائیل سے نفرت ایرانیوں کے خون میں شامل ہے، جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
انقلاب اسلامی کے بعد استعماری قوتوں نے اسے ناکام بنانے کیلئے سر جوڑ لئے اور اسے ”شیعہ انقلاب“ بنانے کیلئے بھرپور کوششیں کی گئیں، لیکن استعمار کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مشرق وسطٰی میں انقلاب کے نفوذ کو روکنے کیلئے عرب حکمرانوں کو ڈرایا گیا، استعماری قوتوں نے عرب حکمرانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا کہ ایران کا انقلاب آپ کے ملک میں داخل ہوگیا تو اس سے آپ کے صدیوں سے قائم خاندانی اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا۔ عرب ملکوں میں شیعہ سنی فسادات کی آگ لگا کر اسے ہوا دی گئی۔ ایران اور عراق کو جنگ میں جھونک دیا گیا گیا، 8 سال تک ایران عراق جنگ جاری رہی۔ اس جنگ نے بھی انقلاب کا کچھ نہ بگاڑا۔ انقلاب اپنی افادیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ اس کا سارا کریڈٹ ایران کی دُور اندیش قیادت کو جاتا ہے۔ پہلے امام خمینی اور ان کے بعد سید علی خامنہ ای اور ایرانی عوام نے انقلاب کو نہ صرف قائم و دائم رکھا بلکہ اس کی روشنی کو بھی دنیا کے مظلوم انسانوں تک پہنچایا، یہ انقلاب مظلوم اور مستضعفین جہاں کیلئے امید ثابت ہوا۔ آج بھی فلسطین ہو یا کشمیر، مظلومین انقلاب اسلامی سے ہی روشنی لے کر اپنی جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جہاں تک مشرق وسطٰی کے ممالک کی بات ہے تو شام ہو یا یمن، بحرین ہو یا تیونس، وہاں انقلاب اسلامی کی بدولت ہی مظلوم طبقوں نے آمروں کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ دکھایا۔ انقلاب اسلامی ایران کی بدولت ہی کمزور کو طاقتور کیساتھ بات کرنے کا حوصلہ ملا۔ امام خمینی کے پیغام ”اتحاد بین المسلمین“ کو پذیرائی ملی۔ شیعہ سنی ایک دوسرے کے دست و بازو بنے۔ آج عرب ممالک کے سنی انقلاب اسلامی ایران کو ہی اپنی نجات کا ضامن سمجھتے ہیں، فلسطین کی حماس ہو یمن کے حوثی، سب کو انقلاب نے حوصلہ دیا۔ انقلاب اسلامی ایران کے پاکستان پر بھی مثبت اثرات ہوئے۔ یہاں بھی فکر خمینی کی بدولت شیعہ سنی قریب ہونے لگے۔ پاکستان میں شیعہ سنی مسلمانوں کی قربت کو استعمار نے اپنے لئے ”موت“ سمجھا اور اس وحدت کو توڑنے کیلئے یہاں بھی سازشوں کے جال بنے گئے۔ مقامی حکمرانوں کو استعمال کیا گیا اور یہاں ایک تکفیری گروہ پیدا کیا گیا۔ اس تکفیری گروہ کیلئے ریالوں اور ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھول دیئے گئے۔
تکفیری گروہ نے ملک میں ”کافر کافر“ کے نعرے کو فروغ دیا۔ اس سے یہ ہوا کہ اہل سنت اپنے اہل تشیع بھائیوں سے دُور ہونے لگے۔ اس تکفیری گروہ کی بدولت ملک کی اہم ترین شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرین تعلیم، اعلٰی بیوروکریٹس، عدلیہ کے ذہین ترین ججز، حتیٰ کہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا، یہ شخصیات ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی تھیں۔ یہ صرف اس لئے ہوا کہ وہ شیعہ تھے، لیکن کہتے ہیں کہ دریا سدا ایک طرف نہیں بہتے، دھارے اپنا رستہ بدل لیتے ہیں۔ وقت کے دھارے نے بھی انگڑائی لی۔ عوام میں شعور بیدار ہوا۔ امام خمینی کی فکر کی بدولت ”اتحاد بین المسلمین“ کو فروغ ملا، شیعہ اور سنی ایک بار پھر قریب آئے۔ اس قربت سے تکفیری گروہ بے نقاب ہوگیا۔ کیونکہ اہلسنت جان چکے تھے کہ امام بارگاہوں میں بم دھماکے کرنیوالے اب درباروں اور مزاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تکفیریوں کے اس عمل نے ان کے چہرے پر پڑی نقاب الٹ دی۔
آج انقلاب اسلامی کے ”پیغام امن و اخوت“ کی بدولت ہی داعش، القاعدہ، تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور دیگر دہشتگرد تنظیمیں بے نقاب ہوچکی ہیں۔ آج عوام جان چکے ہیں کہ ان تنظیموں اور گروہوں کو اسلام کو بدنام کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ آج عرب دنیا داعش سے اظہار برات کر رہی ہے۔ آج پاکستان میں لوگ تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی سمیت ان کی دیگر ہم خیال جماعتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج پاکستان میں شیعہ اور سنی اتحاد کو فروغ مل رہا ہے اور یہ پاکستان اور اسلام کی کامیابی ہے۔ اسلام دشمن قوتوں نے اپنے تعئیں اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی، انقلاب اسلامی، مبنی برحقیقت ہے اور سچائی کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔ سچائی اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ انقلاب کا پیغام وحدت
اسلامی ہے اور وحدت قائم ہو کر رہے گی۔