مضامین

ہم حالت جنگ میں ہیں

تحریر و ترتیب: عمران خان

بحیثیت قوم ہمیں دو حقائق کا ادراک کر ہی لینا چاہیئے، اول یہ کہ وطن عزیز پاکستان حالت جنگ میں ہے، دوئم یہ کہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کی بلاتفریق ادائیگی کے بغیر کسی بھی طور ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ دہشت گردی کی ہر کارروائی اس چور دروازے کی نشاندہی کرتی ہے، جہاں سے دہشت گرد ہماری صفوں میں داخل ہوتے ہیں، سکیورٹی و انٹیلی جنس دائرے کو توڑ کر پاکستان کے دل پر، پاکستانیوں کی روح پر اور اداروں کی کارکردگی و وقار پر قیامت خیز حملے کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ چور دروازہ ہماری غفلت، چند اہلکاروں کی لاپرواہی، اداروں میں موجود کالی بھیڑوں، محراب و منبر پر قابض بعض فسادی ملاؤں اور نااہل، بددیانت حکمرانوں کی صورت میں وطن عزیز کے ہر شہر میں کھلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سلامتی کے دشمن پاکستان کے ہر اہم شہر کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد جو نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا، اس کا بنیادی ہدف و مقصد یہی تھا کہ اس چور دروازے کو بند کیا جائے۔ ایسی تمام شخصیات، گروہوں اور ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کی جائے گی جو بالواسطہ یا بلاواسطہ دہشتگردی اور دہشت گردوں کی حمایت، مدد یا ان کے مقصد کی ترویج پر مبنی ہیں، مگر افسوس کہ اس نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل نہیں کیا گیا۔

یہاں تک کہ دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے بروقت فیصلے کرنے والی فوجی عدالتوں کو بھی کام کرنے سے روک دیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے کتنی لاپرواہی برتی گئی، اس کا اندازہ سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کیلئے قائم ہونے والے جسٹس قاضی عیسٰی کمیشن کی رپورٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جس میں نہ صرف سکیورٹی پلان میں موجود سقم کی نشاندہی کی گئی بلکہ ان افراد کو بھی مشخص کیا گیا، جنہوں نے لاپرواہی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس رپورٹ کی روشنی سے حکومت اور ادارے کماحقہ استفادہ کرتے اور ان تمام کمزوریوں پر قابو پاتے، تاکہ آئندہ اس نوع کے کسی بھی حملے سے محفوظ رہا جا سکے، مگر عملی طور پر اس رپورٹ کو سرد خانے کے سپرد کرکے وزیر داخلہ نے اس رپورٹ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا۔ نتیجتاً دہشت گردوں نے ایک ہی دن میں دو صوبائی دارالحکومتوں اور فاٹا میں ایف سی کے جوانوں کو نشانہ بنایا۔

ایک ہی دن میں دہشتگردی کے 3 واقعات
پہلی واقعہ جنوبی وزیرستان کے علاقے زرمیلان میں پیش آیا، جہاں بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایف سی کے تین جوان شہید ہوئے۔ زرمیلان میں سکیورٹی اہلکار سرچ آپریشن میں مصروف تھے کہ بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا، جس کا نشانہ بن کر تین ایف سی اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔ جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا، مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس واقعہ کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور شواہد اکٹھے کرکے سرچ آپریشن تیز کر دیا۔ دوسرا سانحہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ میں سریاب پل کے نیچے نصب بم عین اس وقت دھماکے سے پھٹ گیا، جب بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکار اسے ناکارہ کر رہے تھے۔ دھماکے میں کمانڈر عبدالرزاق جو کہ کوئٹہ کے شہریوں کے ہر دلعزیز اہلکار اس لئے تھے کہ متعدد مرتبہ انہوں نے راستوں میں نصب ایسے بموں کو ناکارہ بنایا تھا کہ جو کسی بھی بڑی تباہی کا پیش خیمہ تھے۔ اس دھماکے میں دو اہلکاروں سمیت تین افراد شہید جبکہ گیارہ افراد زخمی ہوئے۔ تیسرا خونیں سانحہ پاکستان کے دل اور پنجاب کے صدر مقام شہر لاہور میں پیش آیا۔ جہاں پنجاب اسمبلی کے سامنے ڈرگ ایسوسی ایشن کے احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں پر خودکش حملہ ہوا۔ جس میں 17 افراد شہید اور 70 سے زائد زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں ڈی آئی جی ٹریفک (سی ٹی او) کیپٹن احمد مبین، ایس ایس پی آپریشن زاہد گوندل سمیت تین وارڈن اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے مذکورہ حملے کی ابتدائی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ 6 بج کر 10 منٹ پر پیش آیا، خودکش حملہ آور الفلاح بینک کی جانب سے آیا، اس کا ہدف پولیس کے سینیئر افسران تھے۔ اس نے جب فارما سوٹیکل کے نمائندگان سے مذاکرات کامیاب کرنے کے بعد ڈی آئی جی کیپٹن (ر) مبین کو آتے دیکھا تو ان کی جانب بڑھا، لیکن ڈیوٹی پر مامور ڈی آئی جی کے گن مین نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی، تو حملہ آور قریب کھڑی آج ٹی وی کی گاڑی کے پاس گیا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی سمیت 6 پولیس اہلکار شہید ہوگئے، جبکہ ابھی تک دھماکے میں 16 شہادتوں کی تصدیق ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کے فوراً بعد شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار نے حملے کی ذمہ قبول کر لی ہے، لیکن ہم ایسی ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے، ہم اس معاملے کی اپنے طریقے سے تحقیقات کریں گے، جس کیلئے فرانزک ٹیمیں جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہی ہیں۔ ڈی آئی جی مشتاق سکھیرا کی بات سی سی ٹی وی فوٹیج نے جھٹلا دی، کیونکہ فوٹیج میں موجود دہشت گرد کو کسی اہلکار کی جانب سے نہیں روکا گیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ہم ایسی ذمہ داری کو قبول نہیں کرتے تو جماعت الاحرار کی جانب سے خودکش حملہ آور کی تصویر بھی جاری کر دی گئی۔ آئی جی پنجاب شائد اس تصویر کو قبول کر لیں۔ دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر افراتفری پھیل گئی، جس کے بعد جس کو جہاں موقع لگا
محفوظ مقام کی جانب اس نے دوڑ لگا دی، جائے دھماکہ پر ہر طرف انسانی اعضا بکھرے ہوئے تھے اور زخمیوں کی چیخ و پکار سے فضا گونج رہی تھی۔ واقعے کے فوراً بعد امدادی کاروایوں کا آغاز ہوگیا اور زخمیوں و شہید ہونے والے اہلکاروں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ میو اسپتال میں 46 جبکہ گنگا رام اسپتال میں 28 زخمیوں کو لایا گیا۔ فارنزک ماہرین کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے خودکش حملہ آور کے اعضا مل گئے ہیں۔

ڈی آئی جی شہید کیپٹن (ر) احمد مبین زیدی
دھماکے میں شہید ہونے والے ڈی آئی جی شہید کیپٹن احمد مبین صبح سے ہی مظاہرین کے ساتھ موجود تھے اور وہ خود ہی پریس کلب کے باہر ٹریفک کلیئر کروانے میں مصروف رہے، انہوں نے مظاہرین سے مذاکرات بھی کئے، مظاہرین کو راستہ کھولنے کیلئے آمادہ کر لیا، تاہم مظاہرین احتجاج کے لئے فٹ پاتھ پر شفٹ ہو رہے تھے کہ دھماکہ ہوگیا۔ دھماکے سے قبل احمد مبین نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ شہریوں کو تکلیف نہ پہنچے اور اسی لئے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کیلئے آیا ہوں، شہریوں کی تکالیف کا احساس دل میں لئے احمد مبین موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ کیپٹن احمد مبین بلوچستان میں تعینات رہے۔ ان کی زندگی کو وہاں بھی خطرہ تھا۔ وہ اکیلے بلوچستان میں تھے جبکہ فیملی پنجاب میں میں مقیم رہی۔ ان پر پہلے بھی کئی بار حملے ہوئے تھے۔ جس میں وہ محفوظ رہے، بلوچستان میں رہنے کے بعد جب ان کا ٹرانسفر ہوا تو پنجاب میں ٹریفک پولیس کی ذمہ داری ملی، جہاں بھی کوئی مسئلہ ہوتا، وہ ہر جگہ وہ پہنچ جاتے تھے۔ گرچہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ خودکش حملہ آور کا اصل ٹارگٹ پولیس، بالخصوص شہید کیپیٹن مبین زیدی ہی تھے، مگر اس کے باوجود پنجاب کے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے انکشاف کیا کہ حملہ آور کا اصل ٹارگٹ وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف تھے۔ ابھی اس انکشاف کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ نجی ٹی وی کے پروگرام میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا اور بتایا کہ حملہ آور کا اصل ہدف وزیراعظم نواز شریف تھے، جنہوں نے گورنر ہاؤس میٹنگ میں جانا تھا، مگر انٹیلی جنس اطلاع پر یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ ممکنہ ہے وفاقی اور صوبائی وزراء کے انکشافات درست ہوں، مگر حملے میں پولیس اہلکار، افسران اور شہری شہید ہوئے ہیں۔

ہر آنکھ اشکبار
خودکش حملے کی خبر ملتے ہی لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں ننگے پاوں ہسپتال اور جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ جوان کی لاش بوڑھے والدین کی کمر توڑ دیتی ہے۔ پولیس اور فورسز میں تو بوڑھے افراد ہوتے ہی نہیں۔ جوانوں کی لاشوں سے ان کے پیارے لپٹ لپٹ کر روتے رہے تو کئی والدین بے یقینی کے عالم میں بار بار کپڑا ہٹا کر بیٹے کا چہرہ دیکھتے، (اس امید پہ کہ شائد یہ وہ نہ ہو)۔ کوئٹہ کا کمانڈر عبدالرزاق بی ڈی ایس میں اتنا ہر دلعزیز تھا کہ اس کی شہادت کی خبر سنتے ہی کئی نوجوان سول ہسپتال کی جانب دوڑے چلے آئے۔ کمانڈر عبدالرزاق کی لاش تو سول ہسپتال چلی گئی، مگر اس کا دل کافی دیر تک جائے وقوعہ پر (وطن کی ارض خاک پہ ہی) پڑا رہا۔ ساتھی اہلکار نے صحافی کو بڑے ضبط اور حوصلے کے ساتھ بتایا کہ واقعی عبدالرزاق کا کام بڑے دل گردے والا تھا۔ آج دیکھ لیا، اس کا دل واقعی بڑا تھا۔

سکیورٹی لیپس
لاہور میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی کی اطلاعات کئی روز سے تھیں۔ رواں سال کی پہلی اطلاع گذشتہ ماہ جاری کی گئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ نوعمر لڑکے شہر کے اہم مقامات پر خودکش حملہ کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے جو وارننگ جاری کی گئی، اس میں ممکنہ مقامات کا بھی ذکر شامل تھا۔ اس اطلاع کے بعد شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ کا نظام بہتر کیا گیا تھا، مختلف مقامات پر چھاپوں اور سرچ آپریشنز میں متعدد افراد کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ بعد ازاں دھماکے سے محض چار دن قبل نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر وارننگ جاری کی گئی اور پنجاب حکومت کو ایک مراسلے میں بتایا گیا کہ دہشتگرد لاہور میں ممکنہ طور پر دہشتگردی کی کارروائی کرسکتے ہیں، اس لئے تمام اہم عمارتوں اور سکولوں کی سکیورٹی مزید بڑھائی جائے۔ انتہائی اہم معلومات ہونے کے باوجود بھی اس خونیں حملے کو روکا نہ جاسکا، جو کہ انتہائی قابل تشویش ہے۔ پنجاب کے بعض صوبائی وزراء نے سکیورٹی لیپس کا اعتراف کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس غفلت کے ذمہ داران نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں لائے جانے کا امکان ہے۔

پاکستان کے دل پر دہشتگردوں کا یہ پہلا حملہ نہیں
لاہور کو ماضی میں بھی متعدد بار دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا، جس میں بہت سے معصوم لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 27 مارچ 2016ء کو لاہور میں گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے موقع پر دھماکہ کیا گیا، جس میں 72 لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ 2015ء میں پولیس لائن قلعہ گجر سنگھ کے باہر ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑایا، جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار شہید، 30 زخمی ہوئے۔ 2010ء میں 2 خودکش حملہ آوروں نے داتا دربار پر حملہ کر دیا اور دربار کے احاطے کے اندر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے کی زد میں آکر 50 لوگ شہید، 200 کے قریب شدید ہوگئے۔ لاہور ہی میں ایک بار
پھر سے 3 مارچ 2009ء کو قذافی سٹیڈیم کے قریب دہشتگردوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر فائرنگ کی، گولیوں کی زد میں آکر ایک ٹریفک پولیس اہلکار موقع پر شہید ہوگیا۔ 15 اکتوبر 2009ء میں مناواں پولیس اکیڈمی کو نشانہ بنایا گیا، جس کے باعث 14 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 38 افراد شہید، 20 زخمی ہوگئے۔ جنوری 2008ء میں شدت پسندوں نے لاہور ہائیکورٹ کے باہر دھماکہ کر دیا، دھماکے کی زد میں آکر 24 افراد شہید، 73 زخمی ہوگئے، جبکہ حملہ آور کا ہدف سکیورٹی پر مامور پولیس کے جوان تھے۔ مارچ 2008ء میں امن دشمن دہشتگردوں نے نیوی وار کالج مال روڈ کو نشانہ بنایا، جس میں 8 افراد شہید اور 24 زخمی ہوئے اور اسی مہینے میں 11 مارچ کو ایف آئی اے کی بلڈنگ پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 16 پولیس اہلکاروں سمیت 21 افراد شہید ہوگئے تھے۔ اس دوران فرقہ وارانہ ٹارگٹ کے ہونے والے سانحات اس کے علاوہ ہیں۔

اسباب محرکات
دہشت گردی کا یہ سانحہ ایسے وقت میں پیش آیا، جب دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ پاک بحریہ کی کثیر القومی امن 2017ء سمندری مشقیں پاکستانی پانیوں میں جاری ہیں۔ ان عظیم الشان مشقوں میں پاکستان سمیت 37 ملکوں کی فورسز اور مبصرین شریک ہیں۔ بحری مشقوں میں آسٹریلیا، چین، انڈونیشیا، ترکی، جاپان، ملائیشیا، مالدیپ، سری لنکا، امریکہ، سعودی عرب، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، ایران، روس، آذربائیجان، بحرین، بنگلہ دیش، برازیل، چین، ڈنمارک، مصر، فرانس، اٹلی، قازقستان، کویت، مراکش، میانمار، نائجیریا، شمالی سوڈان، اومان، فلپائن، پولینڈ، قطر، جنوبی افریقہ، تنزانیہ اور ترکمانستان کے فوجی دستے بحری اثاثوں کے ساتھ شریک ہیں۔ پاکستان کے زیر اہتمام ان بحری مشقوں میں پہلی بار روسی بیڑے، آبدوز شکن جہاز سیور مورسک، روس کے جنگی جہاز، امریکہ کے فریگیٹس، چین کے جنگی جہاز شریک ہیں، جنگی جہازوں کے علاوہ روس کی سپیشل آپریشن فورسز بھی مشقوں میں حصہ لے رہی ہے۔ ان مشقوں میں برطانیہ نے اپنا جدید ترین جنگی جہاز ایچ ایم ایس ڈیرنگ بھیجا ہے، جو دنیا کا بہتر وار شپ مانا جاتا ہے، جبکہ مختلف ملکوں کے جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر بحری کمانڈوز اور مبصرین بھی مشقوں کا حصہ ہیں۔ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی کامیابیوں کا عالمی سطح پر اعتراف اور ضرب عضب کو دہشت گردی کے خاتمے کنجی تسلیم کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ازلی دشمن بھارت کو یہ کامیابی آسانی سے ہضم ہو جائے اور وہ پرامن پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے دے۔ یہی وجہ ہے کہ حملے کے لئے ایسے شہر، وقت، مقام کا انتخاب کیا گیا کہ جہاں حملے کو زیادہ سے زیادہ میڈیا نمایاں کرسکے۔ (واضح رہے کہ میڈیا کوریج کے حوالے لاہور، اسلام آباد کو پاکستان کے تمام شہروں پر سبقت حاصل ہے)۔

یقینی طور پر دشمن اپنے اس مذموم مقصد میں پوری طرح کامیاب رہا اور انتہائی حساس مقام پر اعلٰی پولیس افسران، بیسیوں کیمروں کی موجودگی میں حملے کے ذریعے یہ باور کرایا گیا کہ سکیورٹی ادارے ان حملوں کو روکنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ دوسری اہم چیز پاکستان میں کھیلوں بالخصوص کرکٹ کی بحالی کیلئے شروع ہونے والی پاکستان پریمیئر لیگ (پی ایس ایل) ہے۔ جس کا فائنل ممکنہ طور پر لاہور میں ہونا تھا۔ لاہور میں ہی سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد پاکستانی سٹیڈیم ویران ہوگئے۔ بعدازاں زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور امید پیدا ہوئی کہ شائد پاکستان کے میدان بھی آباد ہو جائیں، تاہم 29 مئی کو قذافی سٹیڈیم کے باہر عین اس وقت حملہ ہوا جب پاکستان اور زمبابوے کے مابین کرکٹ میچ جاری تھا۔ اس خودکش حملے کے بعد کسی بھی بیرونی ٹیم نے پاکستان آنے سے معذرت کرلی۔ یہاں تک کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے بھی گذشتہ برس کے آخر میں عین وقت پر سکیورٹی کلیئرنس کے بہانے دورہ پاکستان منسوخ کر دیا۔ واضح رہے کہ سری لنکن ٹیم کے حملہ آوروں اور قذافی سٹیڈیم کے باہر دھماکے کی کڑیاں ایک ہی گروہ سے جا ملیں۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم کہ جن تنظیموں کے دفاتر اور ہاسٹلز سے ان حملوں کے سہولت کاروں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی انتہائی محدود پیمانے پر کی گئی۔ بعض اطلاعات کے مطابق تو ان سہولت کاروں کے ساتھیوں یا اکابرین کو شامل تشویش تک نہیں کیا گیا۔ اب پی ایس ایل کے ذریعے غیر ملکی کھلاڑیوں کی پاکستان آمد اور یہاں کھیلنے کی جو اکلوتی امید تھی، وہ بھی دھندلانے لگی ہے۔

جماعت الاحرار
حالیہ خونی سانحہ کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی ہے، جو کہ تحریک طالبان کی ایک شاخ ہے۔ اس سے قبل دہشت گردی کے متعدد سانحات کی ذمہ داری یہ دہشتگرد تنظیم قبول کرچکی ہے۔ جس میں ایسٹر کے موقع اقبال پارک لاہور میں خودکش حملہ، کوئٹہ کے سول ہسپتال میں وکلاء پر خودکش حملہ، شکار پور سندھ میں نماز جمعہ کے دوران ہونے ولا خودکش حملہ و دیگر شامل ہیں۔ اس دہشت گروہ کا مرکز مہمند ایجنسی ہے، گرچہ ضرب عضب کے دوران اس گروہ کے دہشتگرد مہمندا یجنسی سے فرار ہوگئے، تاہم بعض رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ اس گروہ کے دہشت گرد بڑے شہروں میں روپوش ہوچکے ہیں۔ ضرب عضب کے بعد جب بحالی کی سرگرمیاں جاری ہیں تو ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہ گروہ پھر سے مہمند ایجنسی میں اپنا سابقہ ہیڈ کوارٹر بحال کرنے کی کوششوں میں ہے۔ جبکہ عراق و شام سے واپس آنے والے ان کے بعض دہشت گرد دوبارہ پاک افغان سرحدی علاقوں کو اپنا مسکن ب
نانے لگے ہیں۔

حاصل کلام
جب کوئی ملک، قوم حالت جنگ میں ہوتے ہیں تو ان کا عمومی رویہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا جو کہ ہمارا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں بیرونی مددگاروں کو جانوروں، پرندوں کے تحفے، بیرونی دورے اور تجارتی سودے تو شامل ہیں، مگر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے پشت پناہ و سرپرست بھارت کے خلاف طویل المدتی، جامع اور مربوط پالیسی اور قانون سازی شامل نہیں۔ تحقیقاتی کمیشن، کمیٹیاں کڑی محنت سے جو رپورٹس تیار کرتے ہیں، چونکہ وہ ذمہ دار ان کے مزاج شاہی کیخلاف ہوتی ہیں، لہذا ان پر غور یا ان سے استفادہ کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور قانون سازی دونوں پہ ذاتی اور سیاسی مفادات کو مقدم رکھا جا رہا ہے اور دہشت گردوں، سہولت کاروں اور ان کے حمایتیوں کے خلاف روٹ لیول تک کارروائی ہی نہیں کی جاتی۔ جن دفاتر، ہاسٹلز سے دہشتگردوں کے سہولت کاروں کی گرفتاریاں عمل میں آئی وہ آج بھی ڈنکے کی چوٹ پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جو اہلکار اور شہری اپنی جانیں قربان کر گئے، ریاست نے کماحقہ ان کے لواحقین کی کفالت کا حق تک ادا نہیں کیا۔ دہشت گردی کے خلاف قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے حکومتی سطح پر بلاتفریق کوئی پالیسی ہی ترتیب نہیں دی گئی، یہی وجہ ہے کہ ایک شہر میں دہشتگردی کی کارروائی کا نشانہ بننے والے جاں بحق اور دوسرے شہر میں شہید لکھے جارہے ہیں۔

سول عدالتوں میں اصلاحات کے بغیر فوجی عدالتوں کی توسیع بھی روک دی گئی ہے۔ کمزور سسٹم کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ سینکڑوں افراد کے قتل کا اعتراف کرنے والا دہشت گرد بھی عدالتی پروانے پہ بارہا رہائی پائے اور بالآخر پولیس مقابلے میں ہلاک ہو۔ جدید ترین انٹیلی جنس آلات و تربیت اور تمام تر وسائل کی موجودگی میں اطلاع کے باوجود حملہ آوروں کی حملے سے قبل عدم گرفتاری اداروں کی اہلیت پر بھی سوال ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور ادارے اپنی ترجیحات میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کو مقدم رکھیں، کیونکہ دہشت گردی کے سانحات میں جو شہید ہوتے ہیں، سیاسی جماعتیں چند دنوں تک ان کے وارث ہونے کی دعویداری کرتی ہیں، پھر بھول جاتی ہیں۔ عوام سے محبت و اخلاص کے دعوے بھی انتخابی موسم کی بہار ثابت ہوتے ہیں، مگر دہشت گردوں کی حامی جماعتیں اور گروہ کبھی بھی ان کی حمایت اور مدد سے نہیں چوکتے، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں عوام، اہلکار لاوارث اور دہشت گرد وارثوں والے ہیں۔ جس کا ایک عکس پھولوں سے منسوب دن کے موقع پر اٹھنے والے ان جنازوں پہ دیکھا جاسکتا ہے کہ جن کے کفن پر لہو رنگ سینکڑوں گلاب کھلے ہیں۔ اگر ہر شخص دہشت گردی کے خلاف اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کا ادراک کرکے ان کی ادائیگی کا مصمم عزم کرلے تو کوئی شک نہیں میرے شہر سے جوانوں کے بجائے دہشتگردی کا جنازہ نکلا۔ (ان شاء اللہ)

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button