امام محمد باقر (ع) کی شہادت
اسلامی روایات کی روشنی میں ٧ ذی الحجۃ الحرام اہلبیت رسول اسلام اور اُن کے دوستداروں کے لئے نہایت ہی غم و اندوہ کی تاریخ ہے سن ١١٤ ھجری میں اسی تاریخ کو آسمان علم و ہدایت کا وہ درخشاں آفتاب مدینہ منورہ میں غروب ہوا ہے کہ جس کی علمی و فکری تابندگی سےبنی امیّہ کی ایجاد کردہ گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں بھی عالم اسلام کے بام و در روشن و منور تھے۔ یہ شب و روز فرزندِ
رسول امام محمد باقر علیہ السلام ، وہ جن کو خود پیغمبرِ اسلام(ص) نے اپنے بزرگ و معتبر صحابی جابر ابن عبداللہ انصاری کے ذریعے سلام کہلوایا تھا ، امام محمد باقر علیہ السلام جن کو دستِ قدرت نے ان کے پدر بزرگوار امام زین العابدین علیہ السلام کی مانند کرب وبلا کی ایک عظیم قربان گاہ اور کوفہ و شام کی اسارت گاہ سے ڈھائی سال کی عمر میں صحیح سالم واپس مدینہ پہنچایا تھا اور جن کے دسترخوان علم سے تقریباً تمام مذاہب و مسالک کے علماء و فقہا نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر خوشہ چینی کی ہے اور کر رہے ہیں۔ ہم اس عظیم فقدان پر ملتِ اسلام کے تمام سوگواروں کو تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔ فرزند رسول امام محمد باقر علیہ اسلام مسلمانوں کے وہ عظیم پیشواء و رہنما ہیں جنہوں نے مکتبِ وحی سے وابستگی اور الٰہی امامت و ہدایت پر فائز ہونے کی وجہ سے تشنگانِ حق و معرفت کو ہمیشہ توحید و انسانیت کا سبق پڑھایا اور علم و دانش کے وہ سر چشمے جاری کئے ہيں کہ آپ کا لقب ہی باقر العلوم یعنی ” علم کا سینہ شگاف کرنے والا ” پڑ گیا۔ آپ کے زمانہ کے اہلسنت کے ایک بزرگ عالم محمد ابن طلحہ شافعی کہتے ہیں : ” امام باقر کے لقب سے معروف محمد ابن علی علم کا سینہ شگاف کرنے والے تھے جن میں تمام علوم یکجا ہوگئے تھے اور اُن کا علم آشکار اور اُن کے ذریعے سر بلند ہے اُن کے وجود سے علم کے چشمے پھوٹتے ہیں علم و دانش کے موتیوں کو انہوں نے سجایا اور زینت و آرایش بخشی ہے اُن کا قلب صاف اور عمل پاک ہے۔ پاکیزہ روح اور اچھے اخلاق کے حامل ہیں اوقات خدا کی عبادت میں بسر کرتے ہيں ، تقویٰ وپرہیزگاری میں ثابت قدم ہیں خدا سے تقرب کی نشانیاں اور منتخب بندوں کی خوبیاں امام محمد باقر کے چرے سے آشکار ہيں فضائل و مناقب اُن کی طرف بڑھنے اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہيں اور پاکیزہ عادات و اوصاف اُن سے شرف و منزلت حاصل کرتے ہيں ۔ فرزندِ رسول(ص)امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے ١٩ سالہ دور امّامت میں بنی امیہ کے پانچ ظالم و جابر حکمرانوں کا مقابلہ کیا اور سیاسی اعتبار سے شدید گھٹن اور تشدد آمیز ماحول میں جس وقت حصول اقتدار کے لئے بنی امیہ اور بنی عباس بر سر پیکار تھے امام علیہ السلام نے پُرسکون علمی و فکری تحریک کے ذریعے اسلام و قرآن کی الٰہی تعلیمات کی حفاظت اور نشر و تبلیغ کا عظیم فریضہ انجام دیا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے بنی امیہ کے وظیفہ خوار ملاؤں کی اسلام دشمن ، تحریفات وتاویلات کی بے شرمانہ یورش کا نہایت ہی تحمل اور علمی و استدلالی بحثوں کے ذریعے مقابلہ کیا اور اُن کے غلط عقائد و نظریات کی جڑیں اکھاڑ کر پھینک دیں لیکن لب و لہجے کی لطافت ، معنوی وقار اور بردبارانہ رفتار کے ذریعے راہ حق و حقیقت پر چلنے والوں کے لئے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ امام محمد باقر علیہ السلام کایوم شہادت چونکہ ایام حج کے ساتھ منسلک ہے آیئے تھوڑی دیر کے لئے آپ کو مکّہ کی روح پرور فضاؤں میں لے کر چلتے ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے ایک قریبی دوست افلح نقل کرتے ہیں کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ خانۂ کعبہ کی زیارت کے قصد سے روانہ ہوا۔ جس وقت آپ مسجدالحرام میں داخل ہوئے اور آپ کی نگاہیں خانۂ کعبہ پر پڑيں آپ نے بلند آواز سے گریہ شروع کر دیا میں نے عرض کی : فرزند رسول ! ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائیں اگر آپ اتنی بلند آواز سے گریہ کریں گے تو لوگ آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے امام محمد باقر علیہ السلام نے اس وقت فرمایا : افلح ! تم کیوں نہيں سمجھتے ہو ! میں یہاں آکر کیسے گریہ نہ کروں شاید اسی گریہ کا سبب آج خدا کی خاص رحمت شامل حال ہو جائے اور کل کامیاب رہوں۔ عزیزان گرامی! اموی حکمران عبدالملک ابن مروان کے ذریعہ عالمِ اسلام کے اس عظیم امام و پیشوا امام محمد باقر علیہ السلام کی زہر دغا سے شہادت پر ایک بار پھر تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں۔