ہنگو الرٹ، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
تحریر: ساجد مطہری
ہنگو کا شمار خیبر پختونخوا کے اہم شہروں میں ہوتا ہے، سرسبز و شاداب کھیتوں اور خوشگوار موسم کے باعث ہنگو کو صوبے بھر میں ایک منفرد مقام ہے، جعرافیائی حوالے سے دیکھا جائے تو اس کے ایک جانب ضلع کوہاٹ کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے اور دوسری جانب اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی کی حدود بھی یہاں سے شروع ہوتی ہیں، یہاں کا کل رقبہ 1097 مربع کلومیٹر ہے اور 2004ء کے حکومتی سروے کے مطابق یہاں کی کل آبادی 391000 افراد پر مشتمل تھی، جس میں آئے دن اضافہ ہوتا رہا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں کی سرزمین جو کسی زمانے میں امن کا گہوارہ سمجھی جاتی تھی، گذشتہ چند دہائیوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، سن اَسی کی دہائی میں، جہاد ِ افغانستان کی آڑ میں، سعودی عرب کی ایماء پر جنرل ضیاء الحق نے یہاں پہلی مرتبہ دہشت گردی کے کیمپ لگائے، آج ان کیمپوں کے تربیت یافتہ دہشت گرد پورے ملک میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال طالبان کا سابق سربراہ حکیم اللہ محسود ہے، جس نے ہنگو میں دہشت گرانہ تربیت پائی اور اس کے بعد اس کے کرتوتوں سے پاکستان کا بچہ بچہ بخوبی آگاہ ہے۔
ان سالوں میں اس خطے پر کیا قیامت گزری، اس کی تفصیل پھر کبھی بیان کروں گا، لیکن میں حالیہ کالم میں ہنگو کی تازہ صورتحال پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ گذشتہ ماہ ایک کالعدم تنظیم نے امن کمیٹی کے رکن ظہیر عباس کو دن دہاڑے گولی مار دی، اس موقع پر ظہیر عباس کے گارڈ کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور شدید زخمی ہوا، جسے انسانی ہمدردی کے تحت فوراً ہسپتال پہنچا دیا گیا اور ایک مہذب شہری کی طرح اسکی نگہداشت کی گئی، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ کر چل بسا، یا پھر راز فاش نہ کرنے کے خوف سے اسے ہسپتال میں ہی قتل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد اس کے جنازے پر جو کچھ ہوا، وہ انتہائی ہی افسوسناک ہے، ملک بھر سے دہشت گردوں کو ہنگو میں اکٹھا کیا گیا اور دہشت گردوں کے اجتماع سے اورنگزیب فاروقی نے خطاب کیا۔
اب آپ خود ہی سمجھ جائیں کہ موصوف نے تقریر میں کیا کہا ہوگا۔ سارا دن شہر دہشت گردوں کے محاصرے میں رہا اور شہر بھر میں ’’کافر کافر” کے نعرے لگتے رہے۔ بات یہاں پہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس دہشت گرد ٹولے نے کچھ دن قبل ہنگو کے علاقے سنگیڑ میں واقع مسلمانوں کے ایک قبرستان کی میں قبروں کی کھلے عام بےحرمتی بھی کی ہے۔ ابھی تک وفاقی حکومت یا مقامی انتظامیہ کی طرف سے اس طرح کے واقعات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ میں ایک پاکستانی ہونے کے ناتے ہنگو کے باشعور عوام کی طرف سے ارباب اقتدار سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ علاقے کی سلامتی اور امن کی خاطر دہشت گردوں کو لگام دی جائے۔ اگر بعد ازاں حالات مزید خراب ہوئے تو پھر مقامی لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ حکومت خود دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔