مضامین

داعش نامہ۔۔۔۔۔ ابتداء سے انتہاء تک(1)

تحریر: سید اسد عباس

’’دولت اسلامیہ فی العراق والشام‘‘ جس کا مخفف داعش ہے، 2014ء میں عراق کے بعض علاقوں پر قبضے کے بعد منصہ شہود پر آئی۔ اس سے قبل دنیا میں القاعدہ کا طوطی بولتا تھا۔ القاعدہ کی مانند اس گروہ کا تعلق بھی سلفی اور وہابی فکر سے تھا، تاہم سلفی اور وہابی اسلام کے سب سے بڑے مراکز سعودیہ، کویت، قطر نے حکومتی سطح پر تو اس گروہ سے اظہار لاتعلقی کیا، تاہم نچلی سطح پر اس گروہ کی حمایت اور مالی معاونت کے شواہد سامنے آئے۔ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ اس گروہ کی تشکیل میں القاعدہ کی مانند امریکی، اسرائیلی اداروں نے بھی کردار ادا کیا۔ بنیادی طور پر القاعدہ کی باقیات جو مختلف اسلامی ممالک میں پس زندان تھی، کو نہایت منظم انداز سے ایک نئی تنظیم اور شکل و صورت کے ساتھ سامنے لایا گیا اور پھر ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت اس گروہ نے عراق میں شب خون مارا اور ایک وسیع رقبہ چند دنوں میں اس گروہ کے زیر قبضہ چلا گیا۔ عراق کے بعد شام میں بھی داعش نے کامیابیاں حاصل کیں، یمن، لیبیا، الجیریا، خراسان، مغربی افریقہ، صومالیہ، قفقاز میں اس گروہ کی شاخیں منظر عام پر آنے لگیں۔ داعش کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والے بہت سے لکھاریوں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر داعش عراق میں موجود صدام حسین کے تحت کام کرنے والے فوجی اور سکیورٹی افسران کا گروہ تھا، جو امریکہ کی قید سے آزاد ہونے والے ایک سلفی جنگو ابوبکر البغدادی کے تحت کام کر رہے تھے۔ داعش کی تشکیل کے حوالے سے 2014ء سے 2017ء تک بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ القاعدہ کی مانند اس کی تشکیل کی تفصیلات بھی منظر عام پر آئیں، جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان افراد کو ایک بڑے ہدف و مقصد کے لئے منظم کرکے میدان میں اتارا گیا اور اس لانچنگ میں بہت سے ممالک کے مختلف اداروں کا اہم کردار ہے۔

ذیل میں داعش کی اعلٰی قیادت کے حوالے سے ایک جائزہ پیش خدمت ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ گروہ کس کی ایما پر اور کیسے معرض وجود میں آیا۔
ابوبکر البغدادی
داعش کی خود ساختہ خلافت کا پہلا اور آخری امیر جس کا حقیقی نام ابراھیم عواد ابراھیم البدری ہے، 1971ء میں عراق کے شہر سامرہ میں پیدا ہوا۔ بغدادی کے والد عواد ایک مذہبی شخصیت تھے، بغدادی بھی مذہب کی جانب مائل تھا جبکہ اس کے کئی رشتہ دار بعث پارٹی کے رکن اور دو چچا صدام کے سکیورٹی اداروں کے رکن تھے۔ بغدادی نے صدام یونیورسٹی سے قرات قرآن کے شعبہ میں ماسٹرز کیا۔ بروکنگ ایجوکیشن سائٹ کے مطابق بغدادی کے بعثی رشتہ داروں کی بدولت اسے گریجویٹ پروگرام میں شمولیت کا موقع ملا۔ بغدادی کے چچا اسماعیل البدری نے بغدادی کو اخوان میں شمولیت کی دعوت دی، جبکہ محمد ہردان نے اسے سلفی اسلام سے روشناس کروایا۔ محمد ہردان اسی کی دہائی میں افغان جنگ میں شرکت کرچکا تھا۔ 2003ء میں جب امریکہ نے صدام حکومت کا خاتمہ کیا تو اس وقت بغدادی نے جیش السنۃ والجماعۃ کے نام سے ایک گروہ تشکیل دیا۔ 2004ء میں بغدادی امریکیوں کے ہاتھوں اسیر ہوا۔ امریکی ذرائع کے مطابق ہمیں معلوم نہ ہوا کہ بغدادی ایک جہادی ہے اور اس نے اپنی اس شناخت کو چھپائے رکھا، جبکہ بغدادی اپنے جس دوست کے ہمراہ گرفتار ہوا، وہ دوست مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھا۔ مغربی منابع کہتے ہیں کہ بغدادی دس ماہ تک ہماری قید میں رہا اور وہاں وہ دینی سرگرمیاں انجام دیتا رہا۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ بغدادی کو جس جیل میں رکھا گیا، وہاں اکثر قیدی صدام کی بعثی افواج کے سابق رکن تھے اور بغدادی ان کے مابین دین پھیلا رہا تھا اور یہ تمام باتیں دنیا کے بہترین سکیورٹی اداروں سے مخفی رہیں۔

بالکل ہالی ووڈ کی فلم کی طرح بغدادی بقعہ جیل میں خفیہ طور پر جہادی مشن پر تھا، بعثی فوجیوں کو اپنی خلافت کے لئے تیار کرتا رہا، اسلامی خلافت کی بنیادیں بناتا رہا اور دنیا کی بہترین انٹیلی جنس سروسز اور فوج جو حالت جنگ میں تھی، کو نہیں معلوم ہوسکا کہ انتہائی مطلوب شخص کا دوست بذات خود جہادی ہے اور جیل میں کیا سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی لئے گارڈین اخبار نے لکھا کہ اگر عراق میں بقعہ جیل نہ ہوتی تو آج داعش کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ بہرحال دسمبر 2004ء میں بغدادی کو چھوڑ دیا گیا اور پھر کبھی نہ دیکھا گیا کہ بغدادی کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ بقعہ جیل سے نکل کر بغدادی نے اپنے ایک رشتہ دار کی وساطت سے القاعدہ جو اس وقت زرقاوی کے سرکردگی میں فعال تھی، میں روابط پیدا کئے ۔ 2006ء میں زرقاوی ایک امریکی حملے میں قتل ہوا اور اس کی جگہ ابو عمر البغدادی نے لی۔ ابو عمر بعثی فوج کا افسر تھا، اس نے زرقاوی کے گروہ میں بعثی فوجیوں کو بھرتی کرنا شروع کیا۔ اس دور میں ابوبکر البغدادی گروہ کے مذہبی امور کا انچارج قرار پایا۔ اسی دوران بغدادی نے علوم قرآن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ بغدادی کو عراقی القاعدہ میں شریعہ کمیٹی کا سربراہ متعین کر دیا گیا۔ زرقاوی کے بعد بننے والے امیر ابو عمر جو خود بعثی فوج کا ایک افسر تھا، کے دور امارت میں بہت سے سابق بعثی فوجی افسر القاعدہ کی اس عراقی شاخ کے رکن بن گئے اور ان میں اکثر وہ افراد تھے، جو بقعہ جیل میں بھی رہے تھے۔

اس گروہ نے القاعدہ کا کنٹرول بیرونی قائدین سے عراقی قائدین تک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ افراد خود تو اپنے بعثی ماضی کے سبب القاعدہ کی عراقی شاخ کی امارت تک نہ پہنچ پائے، تاہم انہوں نے 39 سالہ
ابوبکر البغدادی کو امیر بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ گیارہ افراد کی شوریٰ میں سے نو افراد نے ابوبکر کے حق میں ووٹ دیا اور اس ووٹنگ میں حاج بکر جو بعثی فوج کا ایک سابق کرنل تھا، نے اہم کردار ادا کیا۔ حاج بکر بھی بقعہ جیل میں بغدادی کے ہمراہ رہا۔ داعش کے بقیہ کمانڈرز کا ذکر بعد کی سطور میں آئے گا، بغدادی نے ابتدا میں ایمن الظواہری کی خفیہ بیعت کر رکھی تھی، جب شام کا قضیہ شروع ہوا تو بغدادی نے النصرہ کے جنگجوؤں کو براہ راست احکام دینے شروع کئے، جسے النصرہ نے قبول نہ کیا اور بغدادی سے بغاوت کرتے ہوئے براہ راست ایمن الظواہری کی بیعت کی۔ یعنی ایک وقت میں القاعدہ اور دولت اسلامیہ فی العراق وا لشام کے جنگجو اپنی اپنی خلافت کے قیام کے لئے سرگرم ہوگئے۔ ایمن الظواہری کے احکام کی مسلسل حکم عدولیوں کے باعث بغدادی اور اس کی دولت کو القاعدہ سے بے دخل کر دیا گیا، تاہم عراق اور شام میں یہ گروہ کافی تقویت پکڑ چکا تھا، جو 2014ء میں ایک منظم سازش کے تحت عراق کے ایک وسیع رقبے پر قابض ہوگیا۔ 2014ء میں بغدادی نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں نام نہاد خلافت کا اعلان کر دیا۔ موصل کو اس دولت کا صدر مقام قرار دیا گیا اور اس دوران میں داعش نامی اس گروہ کے ہاتھوں تاریخ انسانیت کے بدترین مظالم وقوع پذیر ہوئے
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button