عرسال میں تکفیری دہشت گردوں کے خلاف حزب اللہ لبنان کی عظیم کامیابی
تحریر: سعداللہ زارعی
عرسال کا وسیع علاقہ شام کی جنگ خاص طور تکفیری دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اہم رکن ہونے کے ناطے لبنان کی اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کیلئے بنیادی کردار کا حامل رہا ہے۔ لہذا شام کے علاقے القصیر میں حزب اللہ لبنان کی جانب سے گرینڈ آُپریشن کے بعد تکفیری دہشت گرد عناصر نے عرسال کے علاقے کو اپنا مرکز بنا لیا تاکہ اس طرح القصیر میں ہونے والی شکست کا ازالہ کر سکیں۔ عرسال کا علاقہ 300 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں لبنان اور شام دونوں کی سرزمین شامل ہے۔ البتہ اس علاقے کا 170 مربع کلومیٹر پر مشتمل حصہ لبنان کی سرحد میں ہے۔ تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے اس علاقے کا انتخاب ایک اسٹریٹجک ہدف تھا جس پر انہوں نے اکتوبر 2014ء میں قبضہ جما لیا۔ لیکن اب حزب اللہ لبنان نے انتہائی مختصر مدت میں ایک شدید جنگ کے بعد یہ سارا علاقہ تکفیری دہشت گرد عناصر سے واپس لے لیا ہے۔ اس عظیم کامیابی اور اس کے مختلف پہلووں کے بارے میں درج ذیل اہم نکات قابل ذکر ہیں:
1)۔ دو سال قبل تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے اس علاقے پر قبضہ کئی اہداف کی خاطر انجام پایا۔ پہلا مقصد شام کی حدود کے اندر خاص طور پر دو مرکزی صوبوں حمص اور دمشق پر قبضے کی غرض سے انجام پانے والے آپریشنز میں بحیرہ روم اور طرابلس سے دہشت گرد عناصر اور اسلحہ و فوجی سازوسامان منتقل کرنے کیلئے ایک محفوظ اور مرکزی پوائنٹ ایجاد کرنا تھا۔ دوسرا ہدف اس علاقے کو حزب اللہ لبنان کے خلاف دباو کے مرکز میں تبدیل کر دینا تھا تاکہ اس طرح شام میں حزب اللہ لبنان کی بھرپور اور فعال موجودگی کو روکا جا سکے اور لبنانی عوام اس علاقے سے اپنے ملک میں انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کو شام میں حزب اللہ لبنان کی موجودگی کا نتیجہ تصور کرنے لگیں۔
تیسرا مقصد لبنان آرمی کو حزب اللہ لبنان کے مقابل لا کھڑا کرنا تھا کیونکہ عرسال میں واقع شام مہاجرین کیمپ کی سیکورٹی کی اصل ذمہ داری لبنان آرمی پر تھی جبکہ حزب اللہ لبنان شام سے مہاجرین کے روپ میں تکفیری دہشت گرد عناصر کا سرحد عبور کر کے اس کیمپ میں داخل ہونے اور لبنان کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے پر خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔ چوتھا مقصد اس علاقے کو شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کے اہلخانہ کیلئے محفوظ مقام بنانا تھا۔ دوسری طرف اس مدت میں حزب اللہ لبنان نے بھی لبنان اور شام کے درمیان سرحدی علاقے پر قبضہ کر کے تکفیری گروہوں کے مذکورہ بالا چار مقاصد کو ناکام بنانے کی اسٹریٹجی اپنا رکھی تھی اور بہت حد تک اس میں کامیاب بھی رہی تھی۔
2)۔ حزب اللہ لبنان نے اس سال مارچ کے مہینے سے لبنان کے تمام سیاسی گروہوں کو اعتماد میں لینے کے بعد عرسال کے علاقے کو تکفیری دہشت گرد عناصر سے صاف کرنے کیلئے وسیع منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا۔ اس سے پہلے لبنان آرمی واضح طور پر لبنانی صدر کو یہ کہہ چکی تھی کہ عرسال اور اس کے مضافاتی علاقے کو تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزاد کروانا اس کے بس سے باہر ہے لہذا یہ کام اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان اور اس کے سربراہ سید حسن نصراللہ کے سپرد کر دینا چاہئے۔ ابتدائی منصوبے کے تحت یہ طے پایا کہ حزب اللہ لبنان یہ آپریشن ماہ مبارک رمضان سے پہلے انجام دے گی لیکن شام کے بعض اندرونی حالات کے پیش نظر اس کے آغاز میں دو ماہ کی تاخیر ہو گئ۔
آخرکار یہ آپریشن شروع ہو گیا اور سعد حریری کی سربراہی میں المستقبل پارٹی کے علاوہ لبنان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن میں حزب اللہ لبنان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یہ صورتحال ملک کی داخلی سطح پر حزب اللہ لبنان کی طاقت اور اقتدار کیلئے انتہائی مطلوبہ صورتحال تھی۔ تکفیری دہشت گرد گروہوں النصرہ فرنٹ اور داعش کی جانب سے عرسال کے علاقے پر قبضے کا ایک اہم ہدف حزب اللہ لبنان کی حیثیت پر سوال اٹھانا اور اس کی راہ میں مشکلات کھڑی کرنا تھا۔ اکتوبر 2014ء میں النصرہ فرنٹ اور داعش نے ترکی اور سعودی عرب کی مدد سے اس علاقے پر قبضہ کیا تھا۔
حزب اللہ لبنان نے عرسال کے قصبے اور الرمل، القاع، الفاکھہ، راس بعلبک، اللبدہ وغیرہ جیسے دیہاتوں پر مشتمل یہ پورا علاقہ صرف چند دن کے آپریشن میں آزاد کروا لیا۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان نے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں موثر اقدامات کے ذریعے کم از کم شہداء اور جانی و مالی نقصان کے ذریعے یہ عظیم کامیابی حاصل کی۔ جیسا کہ آپریشن کے دوران حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اعلان کیا تھا، اس آپریشن کا مقصد النصرہ فرنٹ کا زیادہ سے زیادہ نقصان کرنا نہ تھا بلکہ اصل مقصد یہ علاقہ اس کے قبضے سے آزاد کروانا تھا۔ اسی بنیاد پر سید حسن نصراللہ نے النصرہ فرنٹ کے اعلی سطحی کمانڈرز کے نام اپنے پیغام میں، جو انہوں نے لبنان ٹی وی پر خطاب کے دوران بھی دہرایا، دہشت گرد عناصر کو مختصر مدت کیلئے مہلت دی اور انہیں علاقہ چھوڑ جانے کا مشورہ دیا۔
اس سے قبل عرسال کے میئر مصطفی الحجیری اور لبنان اور شام کے سرحدی علاقوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے سربراہ ابومالک النقلی کے درمیان مذاکرات انجام پائے تھے۔ ان مذاکرات میں ابومالک النقلی نے علاقہ چھوڑنے کیلئے یہ شرط پیش کی کہ النصرہ فرنٹ کے جنگجووں کی شناخت نہیں کی جائے گی اور ان سے اسلحہ بھی ضبط نہیں کیا جائے گا اور انہیں ترکی جان
ے کیلئے محفوظ راستہ مہیا کیا جائے گا۔ یہ مذاکرات ناکامی کا شکار ہو گئے۔
اس کے بعد النصرہ فرنٹ کے نمائندے عباس ابراہیم اور حزب اللہ لبنان کے نمائندے کے درمیان نئے مذاکرات کا آغاز ہوا جن میں النصرہ فرنٹ نے یہ شرط قبول کر لی کہ اس کے جنگجو ہتھیار پھینک کر شام کے صوبے ادلب چلے جائیں گے۔ یہ معاہدہ طے پا گیا اور دو مرحلوں میں انجام پایا۔ دوسری طرف النصرہ فرنٹ نے حزب اللہ لبنان کے قیدیوں کو آزاد کرنے اور شہداء کے جنازے فراہم کرنے کا عہد کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قیدیوں کا یہ تبادلہ انسان کے ذہن میں حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان 33 روزہ جنگ کی یاد تازہ کر دیتی ہے جس کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ لبنان میں قیدیوں کا تبادلہ انجام پایا۔
3)۔ عرسال کی جنگ میں حزب اللہ لبنان کی عظیم فتح ان عظیم کامیابیوں کی ایک کڑی ہے جو گذشتہ دو ماہ میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو حاصل ہوئی ہیں۔ عراق کے شہر موصل کی آزادی جو خطے میں دہشت گردی کا ایک بڑا گڑھ تھا، شام کی مشرقی سرحدوں میں امریکی اسٹریٹجک منصوبے کو ناکام بنانا، دمشق کے مشرق میں نواحی علاقے مشرقی غوطہ اور مغربی حمص میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابی اور پالمیرا اور اس کے نواحی علاقوں میں داعش کی شکست اور حال ہی میں انتہائی کم وقت میں عرسال کی آزادی بہت اچھی طرح اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ خطے کی بحرانی صورتحال آہستہ آہستہ معمول کے مطابق آتی جا رہی ہے۔ اب یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ 2017ء کا سال شام کی سیکورٹی صورتحال میں ایک بڑی اسٹریٹجک تبدیلی کا سال ثابت ہو گا۔
2014ء سے 2017ء تک چار سالہ دور میں دہشت گردی کا خاتمہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔ خاص طور پر اگر ہم اس نکتے کو بھی مدنظر قرار دیں کہ ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کی تشکیل اور ٹریننگ اور تیاری پر کئی پہلووں سے سالہا سال کام ہو چکا تھا۔ امریکہ، ترکی اور سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسیز اور سیاسی تنظیموں نے ان تکفیری گروہوں کی تشکیل اور تیاری میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ چار سالہ دور میں ایسی فورسز کے ذریعے ان دہشت گرد عناصر کا خاتمہ جن کے پاس دہشت گرد عناصر جتنے جدید فوجی وسائل بھی موجود نہ تھے ایک عظیم کارنامہ اور "و ما النصر الا من عنداللہ” کا واضح مصداق ہے۔ بالکل اسی طرح 2001ء سے 2009ء تک 9 سالہ دور میں امریکہ کی جانب سے خطے کے ممالک پر فوجی قبضہ جمانے اور 33 روزہ جنگ جیسی جنگوں کے آغاز پر مبنی منصوبے کی ناکامی بھی ایک عظیم کارنامہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2012ء سے 2017ء تک پیش آنے والی ان تمام جنگوں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا اصل ہدف اسلامی جمہوریہ ایران تھا۔ اگر ہم 2017ء میں حزب اللہ لبنان کو عرسال جیسے صعب العبور کوہستانی علاقے میں حاصل ہونے والی آسان فتح کا 2014ء میں القصیر اور یبرود کے میدانی علاقوں میں بہت مشکل سے حاصل ہونے والی فتح سے موازنہ کریں تو دیکھیں گے کہ اس مدت میں کیا عظیم تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ 2014ء کی جنگ میں اگرچہ القصیر کا علاقہ ہموار اور میدانی تھا لیکن حزب اللہ لبنان کو مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں دو ماہ کا عرصہ لگ گیا جبکہ اس دوران 800 مجاہد بھی شہید ہوئے۔ لیکن اب 2017ء میں عرسال جیسے مشکل پہاڑی علاقے میں ایک ہفتے کے اندر اندر اور صرف 25 مجاہدین کی شہادت سے مطلوبہ اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں۔ لہذا اس جنگ میں درحقیقت اسلامی مزاحمتی بلاک کا ارادہ امریکہ، اس کی پٹھو حکومتوں اور ان کے حمایت یافتہ دہشت گرد عناصر کے ارادے پر غالب آیا ہے جس کے باعث اس کامیابی کو "عظیم فتح” قرار دیا جا رہا ہے۔
4)۔ خطے میں دہشت گردانہ تفکر اور منصوبہ اپنی حتمی شکست کی جانب گامزن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد ہمیشہ کیلئے دہشت گردی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ البتہ ممکن ہے چھوٹے موٹے دہشت گردانہ اقدامات وقوع پذیر ہوتے رہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی پر مبنی منصوبے کی ناکامی کے بعد امریکہ اور خطے میں اس کی پٹھو حکومتیں کوئی نیا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کریں گی تاکہ اس طرح ایران اور اس کی مرکزیت میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو نئے چیلنجز سے روبرو کر سکیں۔ ہمیں ہر گز یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب وغیرہ کیلئے اصلی ترین مسئلہ ایران اور عالمی استکبار کے خلاف اس کی مزاحمت ہے۔ لہذا کوئی یہ گمان نہ کرے کہ اسلام دشمن قوتیں ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں شکست کے بعد اس کی حقانیت کو تسلیم کر لیں گے اور اس کے وجود کو برداشت کر لیں گے۔
اہم یہ ہے کہ ہم فوجی اور سیکورٹی میدان میں شکست کے بعد امریکہ، اسرائیل اور ان کی اتحادی قوتوں کے اگلے منصوبوں کو پہچانیں۔ حالیہ دنوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ عراق کو اسلامی مزاحمتی بلاک سے جدا کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اس بار اسلام پسند قوتوں میں اختلاف ڈال کر ان کی حیثیت اور اعتبار کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی سیاست کے میدان میں انہیں ایران سے الگ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کیلئے عراق ایک انتہائی اہم ملک ہے اور خطے میں عالمی استکبار کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔