10 محرم، فریضہ زینبی کا آغاز
تحریر: ساجد علی گوندل
Sajidaligondal88@gmail.com
وہ زمانہ کہ جہاں ہر طرف ظلمت ہی ظلمت تھی۔ نہ انسان تھا نہ انسانیت۔۔۔ جہان ہر طرف غلامی، ظلم، استبداد، محکومی و جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ عین اسی وقت نور کی ایک نحیف سی کرن نے وہاں سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کرن سورج کا سماں پیش کرنے لگی۔۔۔ اور اپنے اطراف کو کچھ اس طرح اجالا بخشا کہ "جہاں جہالت کے اندھیروں نے زندگی کو اجیرن بنا رکھا تھا” وہاں زندگی نے سر اٹھایا۔ وہی لوگ کہ جو مفہوم انسان و انسانیت سے کوسوں دور تھے، دنیا کے مہذب ترین تمّدن کی آغوش میں آبیٹھے۔۔۔۔ مگر پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔؟ زمانے نے اپنا رخ ایک بار پھر بدلا۔۔۔ زمانے کو مفہوم آزادی، علم و زندگی سے آگاہ کرنیوالے اس عظیم رہنما کو گزرے ابھی تقریباً 50 سال ہی ہوئے تھے کہ پھر سے اندھیرے روشنیوں پر چھانے لگے۔ سب کچھ دھندلا سا دکھائی دینے لگا۔ اسلام کی نورانی تعلیمات کو جہالت و مفاد پرستی کے اندھیروں نے ہر طرف سے گھیر لیا۔۔۔۔ مگر اس بار انداز بدل کر۔۔۔۔
نبی اکرمﷺ کے زمانے میں اسلام کے مقابلے میں کفر تھا مگر حسینؑ ابن علی ؑ کے زمانے میں اسلام کے مقابلے میں مسلمان تھے۔۔۔ کل باہر کے دشمنوں سے مقابلہ تھا مگر آج اندر کے دشمن سے نبردآزمائی تھی، کل کا دشمن خود کو بت پرست کہتا تھا، لیکن آج کا دشمن خود کو خلیفۃ المسلمین اور توحید پرست کہہ رہا تھا۔۔۔ اور رہی بات اسلامی معاشرے کی تو معاشرہ اس قدر تنزلی کا شکار ہوچکا ہے کہ مسلسل گمراہی کی آغوش میں جا رہا ہے۔۔۔ حتٰی معاشرے نے حق و باطل کے معیار کو اس قدر بھلا دیا تھا کہ مسندِ رسولﷺ پر یزید جیسا شخص بیٹھ گیا تھا اور لوگ خاموش تھے۔ قرآنی نکتہ نظر سے کوئی بھی قوم و ملت جو "حق کو باطل اور باطل کو حق شمار کرنے لگے” اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
1۔ ذکر خدا سے غافل ہونا۔
2۔ شہوات طلبی (شہرت، دولت و اقتدار طلبی۔۔۔۔)
اور جب قومیں و ملتیں ایسی ہو جائیں کہ جو اعمال میں مفسد ہوں اور دشمن ان کے اندر ڈیرے لگائے بیٹھا ہو تو ان حالات میں خداوند متعال کو موسٰی جیسے نبی کو 40 دنوں کے لئے طور پر بلانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔ تاکہ ان 40 دنوں میں یہ پتہ چل جائے کہ کون خدا پرست ہے اور کون گوسالہ پرست۔۔۔
61 ہجری میں بھی حالات کچھ اسی طرح کے تھے۔۔۔ بقول سیدالشہداء "اسلام فقط لوگوں کی زبانوں کا چسکا بن چکا تھا” حق کو باطل اور باطل کو حق شمار کیا جانے لگا تھا۔۔۔۔ اور دوسری طرف حالت یہ تھی کہ دشمن خود مسلمانوں کی صفوں میں خیمہ زن تھا۔۔۔ لوگ باطل کو حق سمجھ کر اس کی پیروی کر رہے تھے۔۔۔۔۔ پس ضروری تھا کہ کوئی موسٰی ہو جو فرعون وقت کے خلاف قیام کرے اور باطل کو حق سے جدا کرے۔۔۔۔ اسی ضرورت کے پیش نظر امام حسین (ع) نے وقت کے فرعون کے خلاف کربلا کے میدان میں اسلام کو بچانے کے لئے قیام کیا۔۔۔ اس بار بھی امام حق کے مقابلے میں تخت پر ایک فرعون بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔ عاشورا ہی وہ دن تھا کہ جب حسین ابن علی (ع) نے فرعون کے تخت کو ٹھوکر مار کر خود کو خداوند سے ملاقات کے لئے پیش کیا۔۔۔ حسینؑ ابن علی (ع) کا وہ خون کہ جو پہلے دن غریبانہ و مظلومانہ طریقے سے بہایا گیا، آہستہ آہستہ زور پکڑتا گیا، یہاں تک کہ 40ویں روز (اربعین) کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ وسط آسماں میں ایسا چمکا کہ جس کی چمک سے باطل کو حق کے دائرے سے باہر آنا پڑا۔۔۔
ہاں۔۔۔۔ عاشورا۔۔۔ تا۔۔۔۔اربعین کی اس 40روزہ مدت نے لوگوں پر حق و باطل اس قدر واضح کر دیا کہ لوگ باطل کے خلاف عملاً آواز اٹھانے لگے۔۔۔۔ عاشور کے بعد 40 روز۔۔۔ یعنی۔۔۔ حق و باطل کی جدائی کے ایام۔ عاشور کے بعد 40روز۔۔۔ یعنی۔۔۔۔ تلوار پر خون کی فتح کے ایام۔ عاشور کے بعد 40روز۔۔۔ یعنی۔۔۔ ظلم و ظالم و طاغوتی نظام سے بیزاری کے ایام۔ عاشور کے بعد 40روز۔۔۔ یعنی۔۔۔۔ غدیر سے تجدید عہد کے ایام۔ عاشور کے بعد 40روز۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔ یزید و یزیدیت کی ذلت و رسوائی کے یام۔ عاشور کے بعد 40روز۔۔۔ یعنی۔۔۔۔ درس علم، شجاعت، عزت و آزادی کے ایام۔ عاشور کے بعد 40روز۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔ استغاثہ حسینی پر لبیک کہنے کے ایام۔۔۔۔ بقول ڈاکٹر شریعتی کے "وہ لوگ جو امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے، انہوں نے فریضہ حسینی انجام دیا، جو بچ گئے ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ فریضہ زینبی انجام دیں، ورنہ وہ یزیدی ہیں۔” دس محرم کو کربلا ختم نہیں ہوتی بلکہ فریضہ زینبیؑ کا آغاز ہو جاتا ہے۔