مضامین

جیل بھرو تحریک ۔۔۔2001 اور 2017 ایک نظر!

تحریر: نوشاد علی

غالباً اپریل یامئی 2001کا ذکر ہے ۔جنر ل ریٹائرڈ پرویز مشرف ملک کے مقتدراعلیٰ بن چکے تھے ۔شیعہ ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی ۔وہ دور شیعہ عوام کے لئے ایک مشکل دور تھا ۔تحریک جعفریہ سیاسی مسائل سے دوچار تھی ۔تحریک پر حکومتی پابندیوں کے سلسلہ کا آغاز،آغاز تھا۔قوم منتشر تھی ۔ہر دوسرے دن ٹارگٹ کلنگ کی خبرآتی ۔ایسے میں کراچی کے چند علماء نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا ۔اس تحریک کے تحت شہید ہونے والوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے دوران علماء خود کو پولیس کے حوالے کرتے اور پولیس انہیں جیل منتقل کردیتی ۔علماء کی پیروی کرتے ہوئے عوام اور تنظیمی کارکنوں کی بھی بڑی تعداد نے اس تحریک میں حصہ لیا ۔کئی لوگوں نے اس موقع پر گرفتاریاں پیش کی۔ 2001 کی جیل بھرو تحریک ایک جداگانہ اہمیت کی حامل تھی۔ ایک خاص جذبہ تھا ۔عوا م علماء کی طرف دیکھ رہے تھے ۔علامہ حسن ظفر نقوی ،علامہ عباس کمیلی اور مرزا یوسف آگے آگے تھے ۔جعفریہ الائنس کے پلیٹ فارم سے تمام تنظیموں کو جمع کرنے کے بعد جیل بھرو تحریک شروع کی گئی ۔مطالبہ تھا شہیدوں کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے ۔ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ روکا جائے ۔کچھ یادداشت کے مطابق ایک موقع ایسا بھی تھا کہ پولیس سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔تھانوں میں رش لگنے لگا ۔جیل میں سینکڑوں شیعہ عوام اور علماء مقید ہونے لگے۔جن کی اچھے انداز میں پذیرائی ہوتی ۔قیدیوں کے ماحول کے برعکس مہمان کی طرح رکھا جاتا ۔بعض دفعہ پولیس مجبور ہوکر گرفتار شدگان کو گھر چھوڑ آتی ۔اس تحریک میں علماء آگے تھے ،اسی بناء پر عوام نے اسے خوب سراہا اور علماء کے ہم قدم بنے ۔علماء کی قربانیاں اس حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔مگر اس تحریک میں چند مسائل تھے جو رفتہ رفتہ سامنے آئے ۔عوام کی کثیر تعداد گھروں سے نکل آئی تھی ۔جنازوں میں رش رفتہ رفتہ بڑھتا رہا ۔شہر بھر کے نسبتاً فعال لوگ پہنچ جاتے ۔تاہم معاملات کچھ پیچیدہ ہوگئے۔ تحریک عروج پر تھی ،مگر آگے کا روڈ میپ واضح نہ تھا۔عوام کو کہاں لے جانا ہے،سامنے نہ آسکا ۔اسی اثناء میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوگیا ۔جہادیوں کا رخ مڑ گیا ،شیعہ ٹارگٹ کلنگ کرنے والے عالمی حالات کی طرف دیکھنے لگے ۔ایسے میں ایک مناسب Stopکی بناء پر جعفریہ الائنس نے جیل بھرو تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا ۔موقف اختیا رکیا گیا جذبہ حب الوطنی اور عالمی حالات کے باعث تحریک ختم کی جارہی ہے ۔علماء کاخلوص اس تحریک کو رنگ بھرنے کا باعث بنا اور اسی خلوص کی بنا ء پر عزت دارانہ انداز میں اس تحریک کو معطل کردیا گیا۔علماء کی ان کوششوں کو ہمیشہ سنہری الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ایک مرتبہ پھر علماء نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے ۔6اکتوبر 2017کوخوجہ مسجد کھارادر پر نماز جمعہ کے بعد علامہ حسن ظفر نقوی نے اپنی گرفتاری کے ساتھ اس تحریک کی بنیاد ڈالی ہے ۔مسئلہ کچھ بدلا سا ہے۔معاملہ شیعہ عوام کی گمشدگی اور لاپتہ کرنے کا ہے ۔ملک بھر سے درجنوں شیعہ افرا د لاپتہ ہیں ۔اہل خانہ چند سالوں سے ان کے لئے چیخ و پکار کررہے ہیں ۔لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اگر آپ کا عزیز اس دنیا فانی سے کوچ کرجائے تو آپ کو رفتہ رفتہ اطمینان آنا شروع ہوجائے گا ۔مگر اگر آپ کے بیٹے،بھائی یا والد کا کچھ پتہ نہ چلے تو آپ کا ایک ایک لمحہ بھاری ہوگا ۔کئی خیالات آپ کے ذہن میں گھر کریں گے ۔مختلف سوچیں آپ کی پریشانی کو دوگنا کردیں گی ۔یہی عالم لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا ہے۔لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے زخموں کو فوری طور پر بھرا تو نہیں جاسکتا ۔مگر انہیں دلاسہ ضرور دیا جاسکتا ہے ۔لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوشش کرنے والے قابل تحسین ہیں ۔لاپتہ افراد کے لئے کوششیں کرنے والوں کو فنائنس کا مسئلہ درپیش ہیں ۔یہ لوگ اپنی جنگ قانونی طو ر پر بھی لڑنا چاہتے ہیں ۔اچھے وکیلوں کی بھاری فیسوں کی ادائیگی ان کے لئے مسئلہ ہے ۔قوم کے مخیر افراد کو اس معاملہ کیلئے آگے آنا چاہیے ۔قابل قانونی مشیروں کی ضرورت ہیں ۔ملت کے پڑھے لکھے وکلاء ، قانون دان اور ججز ان کا سہارا بن سکتے ہیں۔
خیر۔۔بات تھی ’’نئی جیل بھر و تحریک‘‘ کی۔جیل بھرو تحریک کا آغا ز پھر کیاجاچکا ہے ۔مطالبہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو بازیاب کیا جائے ۔اگر انہوں نے جرم کیا ہے یا ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے ۔مطالبات بجا ہیں ۔مگر ساتھ اور لوگوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے ۔ملک میں کئی سو افراد ایسے ہیں جن کا کوئی پتہ نہیں ہے۔مجرم یا ملزم کو لاپتہ کرنا ،عدلیہ کے مقاصد فوت کرنے کے مترادف ہے ۔کئی سیاسی کارکنان لاپتہ ہیں ۔جن کا کیس بھی عدالت میں چلنا چاہیے ۔البتہ شیعہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے علامہ حسن ظفر نقوی نے اپنی گرفتاری سے اس تحریک کی ابتداء کی ہے ۔تاہم اس بار جیل بھرو تحریک کا رخ کچھ اور ہے ۔ہمارا مدعا حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کے وفادار ریاستی اداروں سے بھی ہے ۔اس بار کی تحریک میں ایم ڈبلیو ایم کے اہم رہنما آگے آگے ہیں ،جو ملک میں تیزی سے ابھرتی ہوئی سیاسی قوت ہے ۔مظلوموں کی پشتیبان ہے ۔ایم ڈبلیو ایم بڑی حد تک علماء کو چھتری فراہم کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔بڑی تعداد میں علماء ساتھ ہیں ۔اس لئے اس تحریک کے آگے بڑھنے کی امید زیادہ ہے ۔13 اکتوبر کو مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ احمد اقبال ساتھیوں سمیت گرفتاری دیں گے۔ 22 اکتوبر کو ڈاکٹر عقیل موسیٰ خراسان مسجد سے ساتھیوں سمیت گرفتاری پیش کریں گے۔27 اکتوبر کو معروف عالم دین مرزا یوسف حسین ساتھیو
ں کے ہمراہ جامع مسجد نور ایمان ناظم آباد سے گرفتاری دینے والے ہیں ۔یوں لاپتہ افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی آواز جگہ جگہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے اور ہورہے ہیں ۔2001کے بالمقابل آ ج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ہر چیز کیمرہ میں ضبط ہوجاتی ہے ۔واٹس ایپ اور فیس بک عوام کی آگاہی کا مؤثر ذریعہ بن چکا ہے ۔یوں تحریک پنپنے کے امکان روشن ہیں ۔تاہم ماضی کی جیل بھر و تحریک کی خوبیوں اور نقائص کو سامنے رکھنا چاہیے اور اس تجربہ کو ضبط کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے لئے مؤثر جیل بھرو تحریک کو جاری رکھا جانا چاہیے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button