مضامین

مذہبی تکفیر کے بعد سیاسی تکفیر

شیعہ نیوز(پاکستانی خبر رساں ادارہ)

تحریر: نذر حافی
انسان، احساسات و جذبات سے عبارت ہے، بعض افراد اتنے حسّاس ہوتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں لگے پودوں اور پالتو جانوروں و پرندوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے ہیں۔ انسان جتنا احساسات و جذبات سے عاری ہوتا ہے، اتنا ہی انسانیت سے بھی دور ہوتا ہے۔ اگر کسی کا ایک جانور گم یا لاپتہ ہو جائے تو پورے گھر پر سوگ کی فضا چھا جاتی ہے، اب پوچھئے اُن بچوں سے جن کے والد کو لاپتہ ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں اور محسوس کیجئے اُن ماں باپ کا اضطراب، جن کے بچے کو گم ہوئے کئی دِن ہوچکے ہیں۔ کیا آج ہزاروں سالہ پرانے فرعونوں کے دور سے بھی بدتر زمانہ آگیا ہے!!!؟؟؟ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کروا دیتا تھا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا، لیکن آج عورتیں اور مرد سب لاپتہ ہو رہے ہیں۔ بات فوجی اور سول کی نہیں، پولیس اور ایجنسیوں کی نہیں، جمہوریت اور آمریت کی نہیں بلکہ اس ملک کے حال اور مستقبل کی ہے اور اس ملت کی حالت زار کی ہے۔ بھلا کوئی حکومت اپنے عوام کے ساتھ ایسا رویہ بھی اپنا سکتی ہے کہ لوگ اشکوں میں تر کرکے نوالے کھائیں، سانسوں میں سسکیاں بھریں اور کروٹ کروٹ دکھوں میں سلگیں۔

انگریزوں کی حکومت ہوتی تو اور بات تھی، ہندووں کی سلطنت ہوتی تو الگ مسئلہ تھا، طالبان کا نظام ہوتا تو دوسری نوعیت تھی، لیکن یہاں تو نہ انگریز ہیں، نہ ہندو ہیں، نہ سکھ ہیں، نہ عیسائی ہیں۔۔۔۔ عوام کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہوں، ایک اسلامی، فلاحی، روشن خیال اور جمہوری سلطنت میں اُن کے سینوں میں خنجر گھونپنا کسی طور بھی روا نہیں۔ کوئی بلوچ ہو، سندھی ہو، پٹھان ہو، پنجابی ہو، شیعہ ہو یا سُنّی ہو، وہ اس ملک کا بیٹا ہے اور اس دھرتی کا فرزند ہے۔ یہ زمین، یہ دھرتی، یہ ملک، یہ وطن، یہ دیس اُس کی ماں ہے۔ اولاد جتنی بھی نافرمان ہو، ماں کبھی بھی اپنے دامن کے سائے کو اُس کے سر سے نہیں ہٹاتی۔ کل تک جس طرح کچھ مذہبی جنونی بات بات پر دوسروں کی تکفیر کرتے تھے، دوسروں کو اسلام سے خارج کرتے تھے اور دوسروں کے خون کو مباح سمجھتے تھے، پھر اس جنون سے ایسی آگ بھڑکی کہ جس نے داتا دربارؒ سے لے کر آرمی پبلک سکول پشاور تک ہر خشک و تر کو جلا کر راکھ کر دیا۔

آج اُسی طرح مذہبی تکفیر کے بعد اب سیاسی تکفیر کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، اب وطنِ عزیز میں ایسی رسم چلی ہے کہ جس سے سیاسی اختلاف ہو، اُسے ملک کا دشمن کہہ دیا جاتا ہے، جو سیاسی میدان میں سر اٹھانے کی کوشش کرے، اُسے غدار کہہ دیا جاتا ہے، جو عوام کے حقوق کی بات کرے، اُس پر قوم پرست اور غیروں کے جاسوس کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ہم اربابِ حل و عقد کی خدمت میں مودبانہ طور پر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح لوگوں کو زبردستی اسلام سے خارج کرنے کا نتیجہ انتہائی بھیانک نکلا ہے، اُسی طرح لوگوں کو زبردستی پاکستانیت سے خارج کرنے کا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔ لہذا بحیثیت پاکستانی ہماری گزارش ہے کہ مسائل کا حل تکفیر سے نہیں بلکہ تدبیر سے کیا جانا چاہیے، سیاسی مخالفین کو زنجیر سے نہیں اخلاق سے اسیر کیا جانا چاہیے اور مشکلات کو جبر و تشدد سے نہیں صبر و تحمل سے حل کیا جانا چاہیے۔

اگر سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے تکفیر کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کل کو جب دو ہمسائے بھی جھگڑا کیا کریں گے تو ایک دوسرے پر غداری اور مُلک دشمنی کا الزام ہی لگایا کریں گے۔ یقیناً یہ امر جہاں عوام میں بے چینی کا باعث ہے، وہیں مُلک کی بدنامی کا سبب بھی ہے۔ گذشتہ دنوں سیاسی ٹسل کے باعث ایڈووکیٹ ناصر عباس شیرازی کو بھی لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کا اس طرح سے لاپتہ ہونا قانونی مسئلے کے ساتھ ساتھ دینی، اخلاقی اور انسانی احساسات و جذبات کا مسئلہ بھی ہے۔ ہمارے نزدیک ملک و ملت کی مصلحت یہی ہے کہ اس سلسلے کو اب بہر طور رُک جانا چاہیے۔ کوئی مذہبی مخالف ہو یا سیاسی، تکفیر کے حربے سے اُسے راستے سے ہٹانے کے بجائے اُس کے خلاف قانونی اور آئینی جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ انسان جتنا احساسات و جذبات سے عاری ہوتا ہے، اتنا ہی انسانیت سے بھی دور ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے میں دوسروں کے مذہبی اور سیاسی احساسات و جذبات کو مجروح ہونے سے بچائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button