مضامین

مسلمان ہونے سے معذرت

شیعہ نیوز(پاکستانی خبر رساں ادارہ)تحریر: سعید عبداللہ
جب میں چھوٹا تھا تو سب کا احترام کرتا تھا، محلے والے مجھے نیک خالد کہتے تھے، پانچ وقت کی نماز مسجد میں پڑھتا تھا، ہر جمعرات کو ضرور داتا دربار پر دعا کے لئے جاتا تھا، ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو گیارھویں شریف کی دیگ پکا کر عزیز و اقارب اور غرباء و فقراء میں تقسیم کیا کرتا تھا، اگر تصویر میں بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مزار نظر آجائے تو اس کی طرف پشت نہیں کرتا تھا، گاڑی میں بزرگوں کے لئے جگہ چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا، بزرگوں کے احترام سے میرا مقصد اپنے فرقے کی تبلیغ نہیں ہوتا تھا بلکہ میں خلوص دل سے بزرگوں کا احترام کرتا تھا۔ کسی کا کوئی فوت ہو جائے تو اس کی قبر پر قرآن شریف کی تلاوت کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔
لیکن جب میں بڑا ہوگیا تو مجھے پتہ چلا کہ ان چیزوں سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا، مسلمان بننے کے لئے تو پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلنا پڑتا ہے، مسجدوں میں نعرہ تکبیر لگا کر پھٹنا پڑتا ہے، پاکستان کو کافرستان کہنا پرتا ہے، اپنے بزرگوں کی قبروں پر تھوکنا پڑتا ہے، دوسروں کے بزرگوں کی قبروں کو مسمار کرنا پڑتا ہے، صحابہ کرام کے مزارات کو گرانا پڑتا ہے، اولیائے کرام کے آستانوں کو شرک کے مراکز کہنا پڑتا ہے۔ شام اور عراق کی طرح دوسروں کے ملکوں اور گھروں میں جا کر قبضہ کرکے مال و متاع لوٹنا پڑتا ہے۔
حضرت غوث الاعظم کی گیارھویں کے بجائے حضرت ٹرمپ کو لاکھوں کے تحفے اور ہدیئے دینے پڑتے ہیں، صحابہ کرام کے مزارات کو چومنے کے بجائے نریندر مودی کے رخسار چومنے پڑتے ہیں، اولیائے کرام کے مزارات پر دھمال ڈالنے کے بجائے ٹرمپ کے بازوں میں بازو ڈال کر بھنگڑا ڈالنا پڑتا ہے، تل ابیب کو گرانے کے بجائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی بیٹی کی قبر کو گرانا پڑتا ہے اور نبی ؐ کے پاک صحابہ جیسے حضرت ایوب انصاری اورحضرت اویس قرنی و حضرت حجر ابن عدی کے مزارات کو منہدم کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو اسلحے اور بمبوں کے ساتھ دبا کر رکھنا پڑتا ہے۔ کسی کو بھی چیخنے یا چلانے کی اجازت نہیں دی جاتی، جو چیخے اور چلائے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے، یہ خاموش ہو کر نہیں رہتا۔

اگر صحابہ کرام کے مزارات منہدم ہوتے ہیں تو ہونے دو، اگر اولیائے کرام کی توہین ہوتی ہے تو ہونے دو، اگر پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں تو کاٹنے دو، اگر آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کرنے دو، اگر پاکستان کو کافرستان کہا جاتا ہے تو کہنے دو، اگر قائداعظم کو کافراعظم کہا جاتا ہے تو کہنے دو، چونکہ یہ سب اسلام ہے اور جو اس کے خلاف بولے گا، وہ فرقہ پرست اور کافر ہے۔ ہاں میرے دوستو! میں مسلمان نہیں ہوسکتا، یہ بہت سخت کام ہے، میں اپنے بزرگوں کی قبروں پر نہیں تھوک سکتا، اپنے وطن سے غداری نہیں کرسکتا، اپنی مسجدوں میں خودکش حملے نہیں کرسکتا، اپنے اولیائے کرام کے مزارات کو شرک کے اڈے نہیں کہہ سکتا، نہیں نہیں میں ایسا نہیں کرسکتا، میری معذرت قبول کیجئے اور مجھے کافر ہی رہنے دیجئے۔ مجھے اپنا وطن، اپنی فوج اور اپنے لوگ عزیز ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button