مضامین
کمزور حکمران اور طاقتور میڈیا
:پاراچنار شاید اس لئے نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ یہاں اکثریتی آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور طالبان ان کا ناطقہ بند کر کے خود کو اس علاقے کا چوہدری ثابت کرنا چاہتے اور اپنے غیر ملکی آقاوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر تو میڈیا نے کوئی توجہ نہیں دی۔ یہاں شیعہ شہریوں کا خون مباح سمجھ لیا گیا ہے ۔دہشتگرد ظالمان قصابوں کی طرح شیعہ مزدوروں اور کاروبار کرنے والوں کو ذبح کرتے ہیں۔ ان کی تصاویر نیٹ پر موجود ہیں، مگر کسی میڈیا گروپ نے اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ کیا یہی قومی ذمہ داری سمجھ لی گئی ہے۔
کسی بھی قوم کے اتحاد اور وفاق کی مضبوطی میں میڈیا کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ ہم پاکستانی ایسی بدقسمت قوم ہیں کہ ہمیں حکمران مخلص ملتے ہیں اور نہ حقیقت بتانے والے ذرائع ابلاغ۔ سب کام جعل سازی پر ہی چل رہا ہے۔ موروثی سیاست کے مضبوط پنجے ہونے کی وجہ سے تین چار خاندانوں کی حکومت پر اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ باپ فوت ہو جاتا ہے تو بیٹا یا بیٹی آگے آ کر پارٹی کی قیادت سنبھال لیتی ہے اور یہ نوخیز اور نووارد بچے قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے لگتے ہیں۔
دوسری طرف میڈیا کی حالت بھی میدان سیاست سے مختلف نہیں۔ میڈیا میں جہاں وراثتی عہدے چلے آ رہے ہیں تو پروفیشنل انداز ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ گویا یہ بھی سیاست کی طرح موروثی ہی بن چکا ہے۔ سوائے ایک یا دو اخبارات کے سب میں ایڈیٹر کا عہدہ برائے نام رہ گیا ہے۔ اس عہدے پر مالک خود یا اس کا بیٹا براجمان ہے اور پروفیشنل کام نہیں ہو رہا۔ ہر کسی کا مقصد پیسے بنانا، کسی نہ کسی مقتدر قوت، ایجنسی، سیاسی پارٹی کی ترجمانی اور اس کے حق میں یا اس کے لئے پراپیگنڈہ کرنا اس میڈیا کی ذمہ داری سمجھ لی گئی ہے۔ جس کو یہ سب میسر نہیں، وہ اپنے کاروبار اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ٹی وی اور اخبارات کے مالکان بن گئے ہیں۔ اور تو اور۔۔اب ۔۔تو پراپرٹی ڈیلرز نے بھی اپنے ٹی وی چینلز اور اخبارات شروع کر لئے ہیں۔ اور پھر وہ اس کے ذریعے حکومت اور عوام کو بیوقوف بنا کر لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تو اس طرح کے لوگوں کے ذریعے سے قوم کو جو پیغام میڈیا کے ذریعے پیش کیا جائے گا۔ اس میں ٹی وی مالکان کے مفادات کے تحفظ کی جھلک یا اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے مقاصد تو نظر آئیں گے ہی۔
قوم کی طرح پیپلز پارٹی بھی کیا بدقسمت اور لاچار جماعت ہے، جس کے لیڈرز قتل ہوئے اور آج اس کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہے جن کا کبھی اس جماعت سے تعلق نہیں رہا۔ سب اجنبی پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر مسلط ہیں۔ قیادت نے چند لاوڈ سپیکر اور مداری تلاش کر لئے ہیں۔ جو اپنی شعبدہ بازی سے میڈیا اور ورکرز کو بیوقوف بنانے کا فن خوب جانتے ہیں ۔۔۔ تو پھر کیا؟۔۔۔جہاں بھی جاتے ہیں۔۔۔ ان کی پریس کانفرنسز کو لائیو کوریج دی جاتی ہے۔ پارٹی کارکن کل بھی جیوے جیوے ۔۔۔آوے گا بھئی آوے گا۔۔۔ ساڈا شیر اے۔۔۔ کے نعرے لگاتا تھا اور آج بھی اس کے ذمے صرف یہی ہے۔
میڈیا کے ہاتھوں جو حشر موجودہ حکومت کا ہوا ہے۔ شاید سرکاری ادارے اور بیوروکریسی پر پیپلزپارٹی کے وزراء کا دبدبہ نہیں کہ صدر آصف علی زرداری کی بیماری سے منسلک من گھڑت یا صحیح باتوں کو جس طرح اچھالا گیا ہے اس کا کسی نے کوئی توڑ پیش نہیں کیا اور نہ ہی کوئی باقاعدہ کوشش کی گئی کہ بظاہر بیماری کا بہانہ بنا کر دوبئی روانہ ہونے والے صدر مملکت کی صحت کے بارے میں قوم کو آگاہ کیا جاتا۔ جب communication gap ہو گا تو غلط فہمیاں تو جنم لیں گی۔ پھر Spiral of Silence Theory کے مطابق ایک پراپیگنڈہ کا توڑ نہیں دیا جاتا یا مخالفانہ موقف سامنے نہیں آتا تو عوام یقین کر لیتے ہیں کہ جو کچھ بتایا گیا ہے وہ صحیح ہے۔ اسی سے پراپیگنڈہ مشینریاں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ جو اس حکومت کے ساتھ ہوا ہے۔ کچھ افراد نے جو بھی وضاحت پیش کی اس کے مخالف نظریہ بھی آیا تو عوام میں افواہوں نے مزید زور پکڑا، جس سے غیر یقینی کی سی صورتحال کا اس وقت قوم کو سامنا ہے۔
اب تو یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ صحافی پراپیگنڈہ مشینری میں استعمال ہونے والا بنیادی آلہ ہے، لیکن صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی خبر دینے سے پہلے اس کے حقائق کے بارے میں مکمل چھان بین کر لے اور اطمینان کر لے کہ اس کی خبر کے عوام میں جانے سے اثرات کیا مرتب ہوں گے۔ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے ان کا موقف بھی اپنی خبر کا حصہ بنا لے۔ تاکہ خبر خبر ہی رہے، پراپیگنڈہ نہ بن جائے۔
اب تو پیپلز پارٹی کے رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کی کی دونوں حکومتیں میڈیا کے پراپیگنڈہ کی وجہ سے ٹوٹیں اور اب موجودہ تیسری حکومت بھی اپنے قیام سے اب تک بدمست میڈیا کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ قیاس آرائیوں پر مبنی ذرائع کے نام سے ٹیبل سٹوریز دینے، قوم میں ہیجانی کیفیت اور مایوسی پیدا کر کے ہم حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اہل صحافت کو ا س پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ ورنہ جہاں آج ہم 16 دسمبر 1971ء کے سقوط ڈھاکہ میں سرکاری میڈیا کے کردار پر آنسو بہار رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ شرمندگی ہمیں اس پر اٹھانہ پڑے گی، جب خدانخواستہ پاکستان سے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ اور پانچواں فوجی مارشل لا نافذ کر دیا جائے گا۔ تو پھر ۔۔۔کیا بوٹوں والے صحافت کو آزاد رکھیں گے؟ نہیں،
تاریخ بتاتی ہے کہ کہیں بھی ایسا ہرگز نہیں، صحافت اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور دونوں کے چاہنے والے شیدایوں نے ماضی میں اس کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کہیں بھی ایسا ہرگز نہیں، صحافت اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور دونوں کے چاہنے والے شیدایوں نے ماضی میں اس کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
1971ء سے پہلے کیسے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی، تو ہمارا اس وقت کا سرکاری اور نجی میڈیا باغیوں کے مقابلے میں فتوحات کے جھوٹے دعوے 16 دسمبر کی صبح تک کر رہا تھا۔ حتٰی کہ 16 دسمبر 1971ء جس دن 11بجے دن ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں پاک فوج لیفٹینٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی قیادت میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔ اس کے صبح کے بلیٹن میں فوج کی باغیوں کے خلاف فتوحات کی خبریں دی جا رہی تھیں۔ اس وقت کے میڈیا نے سرکاری کل پرزے کا کام کرتے ہوئے قوم کو اندھیرے میں رکھا اور حقائق نہیں بتائے۔ اب بھی ہم اپنی قوم کو حقائق سے آگاہ نہیں کر رہے۔ مگر حکومت نہیں کسی اور قوت کے اشارے پر۔ آج بھی بلوچستان اور فاٹا میں جاری فوجی آپریشن کی اصل صورتحال میڈیا پر نہیں آنے دی جاتی اور نہ ہی کوئی میڈیا ایسی جرات کر رہا ہے۔
آج فاٹا میں جاری ملٹری آپریشن کے حوالے سے بھی محدود خبریں آتی ہیں۔ صحافیوں کو میدان جنگ یا جائے وقوعہ پر ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کیا یہ باعث شرم اور مجرمانہ غفلت نہیں کہ گذشتہ ساڑھے چار سال سے کرم ایجنسی کے ہیڈکوارٹر پاراچنار ٹل روڈ بند ہے، جو اسے ملک کے دیگر علاقوں سے ملانے والا واحد راستہ ہے۔ مگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس پر کوئی رپورٹ سامنے نہیں آتی۔ جو کچھ فوج وہاں کر رہی ہے اس کی تشہیر بھی آئی ایس پی آر کے ذریعے آ رہی ہے، مگر عوامی مشکلات او ر وہاں کے عوام کے روزگار اور روز مرہ کی ضروریات زندگی کی فراہمی، وہاں کے بچوں کے تعلیمی مستقبل اور روزگار کے حوالے سے کوئی رپورٹ یا خبر الیکٹرانک میڈیا میں دیکھنے یا اخبارات میں پڑھنے کو نہیں ملتی۔ جبکہ لوگوں کے ذاتی معاملات اور بھارتی اداکاراوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے خبریں اور معلومات قومی ذمہ داری سمجھ کر دی جاتی ہیں۔
پاراچنار شاید اس لئے نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ یہاں اکثریتی آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور طالبان ان کا ناطقہ بند کر کے خود کو اس علاقے کا چوہدری ثابت کرنا چاہتے اور اپنے غیر ملکی آقاوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر تو میڈیا نے کوئی توجہ نہیں دی۔ یہاں شیعہ شہریوں کا خون مباح سمجھ لیا گیا ہے ۔دہشتگرد ظالمان قصابوں کی طرح شیعہ مزدوروں اور کاروبار کرنے والوں کو ذبح کرتے ہیں۔ ان کی تصاویر نیٹ پر موجود ہیں، مگر کسی میڈیا گروپ نے اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ کیا یہی قومی ذمہ داری سمجھ لی گئی ہے۔
میڈیا اس میں بھرپور دلچسپی لیتا ہے کہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی کونسی اداکارہ کی سالگرہ کب ہے؟ اس نے فلموں کا معاوضہ کتنا بڑھایا ہے؟ اور کس کے لو افیئرز آج کل کس ساتھی اداکار کے ساتھ ہیں؟ یا پھر حکومت کو کمزور کیسے کرنا ہے۔ ہمارے میڈیا کے احساس ذمہ داری کا اس سے ہی اندازہ کر لیجئے کہ پاکستان مخالف امریکی شہری کی ایک لاوارث ای میل پر میمو سکینڈل شروع کر دیا گیا ہے اور اسے مماثلت دی جا رہی ہے، امریکی صدر نکسن کے خلاف واٹر گیٹ سکینڈل سے، جس میں انہیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ پاکستان کے اس اہم اور حساس سکینڈل میں میڈیا کا رویہ غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ کس طرح عیاں ہے کہ میمو کے ساتھ گیٹ کا لفظ لگا کر اسے میمو گیٹ اسکینڈل بنا دیا گیا ہے کہ شاید یہاں بھی صدر اس پر مستعفی ہو جائیں گے۔
پاکستان میں میڈیا کو مثالی نہ سہی کافی حد تک آزادی حاصل ہے، حکومتیں ڈرتی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے میں سب سے زیادہ متحرک کردار میڈیا کا تھا۔ اس لئے میڈیا کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ ہیجان انگیزی کی بجائے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی جائے۔ تاکہ قومی معاملا درست طور پر چلائے جا سکیں اور ملک دنیا میں ایک باوقار قوم کے طور پر پہچانا جا سکے۔
اور تو اور امریکہ کی طرح سعودی عرب کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس پر تو میڈیا نے کبھی ذکر بھی نہیں کیا۔ ایک فرقے کی سرپرستی اور دوسرے کی سرکوبی کی خواہش اس پاکستان دوست مسلم ملک کا ایجنڈا ہے۔ اس پر بھی خبریں دی جانی چاہیں، مگر نظر کہیں نہیں آئیں۔۔۔۔