مضامین

جی ہاں۔۔۔یہ وہی ٹرمپ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

⭕جی ہاں بالکل یہ وہی ٹرمپ ہے جس کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر سعودی بادشاہ اور شہزادے ڈانس کر رہے تھے۔’’یہ ایک اتحادی کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں،میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے احکامات دیتا ہوںیہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھایروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ بہت عرصے پہلے ہو جانا چاہیے تھا‘‘ان الفاظ کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر اعلان کردیا کہ وہ یروشلم یعنی قدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردے رہا ہے ۔دوسری جانب اس اعلان کے بعد غاصب ریاست اسرائیل کی جانب سے کہا گیا کہ’’ آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان نے ہمارے لیے یہ ایک تاریخی دن بنا دیا ہے،دنیا کے ہر کونے میں ہمارے لوگ یروشلم واپس آنے کے لیے بے تاب ہیں۔یہ ایک تاریخی دن ہے۔ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت 70 سے ہے۔ یروشلم ہماری امیدوں، خوابوں اور دعاؤں کا مرکز رہا ہے۔ یروشلم یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے۔ یہاں پر ہماری عبادگاہیں رہی ہیں، ہمارے بادشاہوں نے حکمرانی کی ہے اور ہمارے پیغمبروں نے تبلیغ کی ہے۔عالمی اور علاقائی سطح پر ٹرمپ کے اس اعلان پر شدید تنقید جاری ہے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل سے لیکر یورہی یونین تک سب کاکہنا ہے کہ یہ ایک غیر ذمہ دار اور یکطرفہ فیصلہ ہے جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کا اعلان بین الااقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے خلاف ہے۔لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اپنے اس اعلان کو عملی شکل دے پائے گا ؟اس اعلان سے قبل ٹرمپ نے عر ب ممالک خاص کر سعودی عرب سے اربوں ڈالر حاصل کئے تھے جبکہ اسرائیل اور سعودی عرب میں تعلقات میں کے لئے بیگ ڈور روابط کی باتیں زیر گردش ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ بھی دیکھائی دیتا ہے مشرق وسطی میں داعش کا پیدا کردہ بحران نسبی طور پر تھم چکا ہےلیکن شام اور یمن میں سیاسی بحران جاری ہے اور یمن کا مسئلہ پہلے سے زیادہ گرم دیکھائی دیتا ہے کہا جاسکتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عرب بہت سے عرب حکمرانوں کے لئے بنیادی مسئلہ نہیں رہا ہےاور نہ ہی وہ اسرائیل کو اپنا دشمن ملک سمجھنے کے قائل ہیں گرچہ ان ممالک کی عوام کے دلوں میںاب بھی یہ مسئلہ ایک بنیادی اور سلگتا مسئلہ ہے ۔ترکی میں اردگان کے لئے فلسطین کا مسئلہ انتخابی مہم کو گرمانے کے لئے ایک بہترین ایشو تو ضرور ہے لیکن وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مکمل خاتمے کے نقصانات کو سہنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا ترکی نے اب تک اس مسئلے میں صرف سخت لہجہ اور گرم بیانات دینے تک اکتفا کیاہے لیکن کیا اردگان ٹرمپ کے اعلان کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے روابط ختم کرنے کا اعلان کرے گا ؟عرب تجزیہ کاروں کا ایک گروہ سمجھتا ہے کہ ٹرمپ کا اعلان فلسطین اور قبلہ اول کے مسئلے کی جانب توجہ کو بڑھائے گا بعض کا خیال ہے کہ یہ اعلان ایک زلزلے کی ماند ہوگا جو مسلم امہ اور عرب ممالک کو ہلا کر رکھ دے گا ۔ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹرمپ نے اس اعلان سے پہلے مشرق وسطی میں اپنے عرب دوستوں کو پہلے سے ہی آگاہ کیا ہواہے یہاں تک ٹرمپ کا یہودی داماد گھنٹوں عرب بادشاہوںکو اس موضوع پر ڈکٹیشن دے چکا ہے ایسے میں سوائے سخت لہجے کے بیانات ،اجتماعات اورمذمتوں کے علاوہ ہم کسی بھی فائدہ مند چیز کی توقع نہیں کرسکتے ہیں ۔ٹرمپ کے اعلان کے بعد اس بات کا خطرہ پایا جاتا ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں ان شدت پسندگرہوںجیسے القاعدہ اور داعش ۔۔۔ کے لئے گنجائش پیدا ہوگی جو اپنے خاص ایجنڈے رکھتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی فلسطین کے مسئلے کو لیکر کسی قسم کا سنجیدہ اقدام نہیں کیا جو صرف اپنے مخصوص ایجنڈوں کے لئے ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔اس صورتحال میں صرف یہ فلسطینی عوام ہی ہوسکتے ہیں جو اس مسئلے میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں اور شائد دنیا ایک نئے اور وسیع انتفاضے کا انتظار کررہی ہے جو مسلم امہ اور خوابیدہ عربوں کو جگائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button