Uncategorized

کراچی: 2017ء میں فائرنگ، پرتشدد واقعات میں 452 افراد قتل، 1150 زخمی ہوئے، رپورٹ

رپورٹ: ایس جعفری

شہر قائد میں رواں سال 2017ء کے دوران ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتی میں مزاحمت و پُرتشدد واقعات میں ڈی ایس پی سمیت 17 پولیس اہلکار، ایک رینجرز اہلکار، رٹائرڈ کرنل، 2 ڈاکٹر، بینک منیجر، اے ایس ایف کے اہلکار اور 68 خواتین سمیت 452 افراد جاں بحق اور 1150 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے ماہ جنوری میں نامعلوم ملزمان نے ٹارگٹ کلنگ میں ایک پولیس افسر، ایک کانسٹیبل اور سیاسی تنظیم کے کارکن سمیت 4 افراد کو قتل کیا، جبکہ ڈکیتی میں مزاحمت، ذاتی رنجش اور دیگر واقعات میں کمسن بچے اور 7 خواتین سمیت 35 افراد کو قتل کیا گیا، جبکہ فائرنگ کے واقعات میں پولیس اہلکار، ایف سی اہلکار، نیول افسر اور خواتین سمیت 104 افراد زخمی ہوئے۔ فروری میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں پولیس فاؤنڈیشن کا ایک گارڈ، 5 خواتین، اے ایس ایف ملازم، نجی ٹی وی کا اسسٹنٹ انجینئر اور افغان قونصل خانے کے سیکریٹری سمیت 40 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ فائرنگ کے دیگر واقعات میں پولیس اہلکار، پروفیسر، لیکچرار اور خواتین سمیت 104 افراد زخمی ہوئے۔ مارچ میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 34 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 2 انسانی ڈھانچے بھی ملے، فائرنگ کے دیگر واقعات میں پولیس اہلکاروں سمیت 99 افراد زخمی ہوئے، لقمہ اجل بننے والے افراد میں ایک اے ایس ایف کا اہلکار اور 7 خواتین شامل تھیں۔ ماہ اپریل میں ملزمان کی فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 48 افرادجاں بحق ہوئے، جبکہ فائرنگ کے دیگر واقعات میں پولیس افسر و اہلکار سمیت 96 افراد زخمی ہوئے، مقتولین میں ایک پولیس اہلکار، 2 ڈاکٹر، ایک رٹائرڈ کرنل اور 9 خواتین شامل تھیں۔

ماہ مئی میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 53 افراد جاں بحق اور فائرنگ کے دیگر واقعات میں پولیس اہلکار سمیت 125 افراد زخمی ہوئے، ایک اے ایس آئی اور ایک ہیڈ کانسٹیبل شہید ہوا، جبکہ جاں بحق ہونے والے والوں میں 12 خواتین اور 5 بچے شامل تھے۔ جون میں ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات میں 4 پولیس اہلکار، باپ بیٹے اور صحافی خاتون سمیت 35 افراد جاں بحق اور پولیس افسر و اہلکار، خواتین اور بچوں سمیت 116 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ جولائی میں ٹارگٹ کلنگ میں ایک پولیس افسر، 3 اہلکار اور 3 سیاسی تنظیموں کے 4 کارکنان سمیت 8 افراد کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ ڈکیتی، دشمنی، گھریلو تنازعات و دیگر واقعات میں فائرنگ و پرتشدد واقعات میں 7 خواتین، اسکول ٹیچر اور بچے سمیت 39 افراد قتل ہوئے تھے اور پولیس افسر، 2 اہلکاروں سمیت 94 سے زائد افراد زخمی ہوئے، 28 افراد کو فائرنگ اور 19 افراد کو تیز دھار آلے، تشدد اور گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ اگست میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 4 خواتین، 3 بچوں اور خواجہ سرا سمیت 45 افراد کو قتل کیا گیا، جبکہ ملزمان کی فائرنگ سے 111 افراد زخمی ہوئے، مذکورہ ہلاکتوں میں شامل دہشتگردی کے واقعات میں ایک ڈی ایس پی، ایک پولیس اہلکار، ایک پولیس قومی رضاکار اور ایف بی آر کے سیکورٹی گارڈ اور ایک خاکروب لقمہ اجل بنا تھا، ڈکیتی میں مزاحمت پر بینک منیجر سمیت 4 افراد جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ماہ ستمبر کے دوسرے روز ہی نماز عیدالاضحی کے بعد جب سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن اہل محلہ سے عید ملے رہے تھے کہ عین اس وقت دہشتگردوں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے پولیس اہلکار اور پڑوسی نوجوان کو قتل کر دیا اور پولیس اہلکار سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

اسی ماہ فائرنگ سے سابق کونسلر سمیت 23 افراد ہلاک اور 7 پولیس اہلکاروں اور خواتین سمیت 90 زخمی ہوئے، جبکہ پرتشدد واقعات میں 8 خواتین اور 2 کم عمر بچوں سمیت21 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اکتوبر میں فائرنگ کے واقعات میں 2 پولیس اہلکار اور ایک رینجرز اہلکار سمیت 18 افراد جاں بحق اور پولیس افسر سمیت 86 افراد زخمی ہوئے تھے، جبکہ پرتشدد واقعات میں لیڈی پولیس اہلکار، 3 خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ نومبر میں فائرنگ سے پولیس اہلکار سمیت 19 افراد اور پرتشدد واقعات میں 16 افراد کو قتل کر دیا گیا، جبکہ فائرنگ کے دیگر واقعات میں پولیس اہلکاروں سمیت 104 افراد زخمی ہوئے، جبکہ 16 دسمبر تک شہر میں فائرنگ سے 9 افراد ہلاک اور 41 افراد زخمی ہوئے، جبکہ پرتشدد واقعات میں 8 افراد کو قتل کیا گیا، مقتولین میں 5 خواتین بھی شامل ہیں۔ شہر قائد میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران دہشتگردی میں گذشتہ برسوں کی نسبت واضح کمی دیکھنے میں تو آئی، لیکن اس کے باوجود شہر میں دہشتگرد و جرائم پیشہ افراد اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے، اسلئے ضروری ہے کہ بلاتفریق کارروائیوں کے ذریعے کراچی کو غیر قانونی اسلحہ سے پاک کیا جائے، کالعدم تنظیموں، دہشتگرد گروپس، مختلف جماعتوں کے عسکری ونگز کے نیٹ ورک کا مکمل طور خاتمہ کیا جائے، کراچی سے آخری دہشتگرد کے خاتمے تک آپریشن کو جاری رکھا جائے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے مؤثر حکمت عملی کے ساتھ کراچی آپریشن میں مزید تیزی لائی جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button