گلگت بلتستان سے رشتہ کیا!؟
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)تحریر: نذر حافی
لکھنے والے بہت کچھ لکھ چکے ہیں، اس منطقے کی جغرافیائی اہمیت، معدنی کانیں، آبی ذخائر اور قدرتی حسن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، رہی بات پاکستان سے محبت کی تو عوامِ علاقہ کی تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے ضیاء الحق جیسے آمر کے مظالم تو سہے لیکن ملکی محبت پر کبھی بھی آنچ نہیں آنے دی۔ آئے روز یہ جو گلگت بلتستان میں ہڑتالیں جاری رہتی ہیں، ان کے حقیقی اسباب اور اصلی مسئلے کو جاننے کی ضرورت ہے، بعض لوگ اسے آٹے اور چینی کے مہنگے اور سستے ہونے کا جھگڑا سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ عوامِ علاقہ حکومتِ پاکستان سے اپنی قومی شناخت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم نے جس طرح بنگالیوں کی ہڑتالوں اور اُن کے جذبات کو اہمیت نہیں دی تھی، اُسی طرح ہم گلگت و بلتستان کے عوام کے حقیقی مطالبات سے بھی آنکھیں چرا رہے ہیں۔ یہ ہمارے سیاسی و قومی اکابرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس منطقے کے عوام کی قومی حیثیت کو مشخص کریں۔ اگر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے انہیں گلگت و بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے میں مشکلات درپیش ہیں تو پھر عوامِ علاقہ کو اعتماد میں لے کر اُن کے لئے کسی موزوں اور متناسب نیز متبادل سیٹ اپ پر غور کیا جائے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں شمولیت کی خواہش ایک آئینی و جمہوری خواہش ہے اور ہمارے سیاسی زعماء کو اس کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ گلگت بلتستان میں اس وقت کتنے ہی دنوں سے ٹیکسز کے نفاذ کے خلاف غذر سمیت مختلف علاقوں میں پہیہ جام ہڑتال جاری ہے۔ سخت سردی میں لوگ اپنے حقوق کی خاطر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ تمام چھوٹی بڑی دکانیں، کاروباری مراکز، نجی ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہیں، عوام کا مطالبہ ہے کہ جب تک گلگت بلتستان کو قومی سطح پر نمائندگی نہیں دی جاتی، اس وقت تک کسی بھی طرح کے ٹیکسز کا نفاذ ناقابل قبول ہے۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اگر وقتی طور پر حکومت ٹیکسز کے مسئلے سے عقب نشینی کر بھی لے تو پھر بھی یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں، چونکہ اصل مسئلہ عوامی و انسانی حقوق اور گلگت بلتستان کی ملی شناخت کا ہے۔ ایسے میں ہم سب پاکستانیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارا بھی گلگت و بلتستان سے کوئی دینی و نظریاتی رشتہ ہے یا نہیں!؟ اگر ہم اہلیانِ گلگت و بلتستان کو دینی بھائی سمجھتے ہیں اور پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ کی حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں بھی اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں اہلیانِ گلگت و بلتستان سے اظہار یکجہتی کے لئے اپنے ایمان کی حرارت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اب یہ بات پاکستانی دانشوروں اور اربابِ حل و عقد کو اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ جاری ہڑتال جس نتیجے پر بھی منتہج ہو، ہمیں بہرحال گلگت و بلتستان کی ملی شناخت اور علاقائی سیٹ اپ کے حوالے سے دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔ روز روز کی ہڑتالوں سے جہاں ملکی اقتصاد اور ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے، وہیں اس سلسلے میں ہماری سرد مہری سے ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی مسلسل فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اپنے ملک کو اقتصادی نقصانات اور بھارت کی چالوں سے بچانے کے لئے ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کریں اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے عوام بھی اہلیان گلگت و بلتستان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے اُن سے اظہار یکجہتی کریں۔ اگر ہم سب جی بی کے اصل مسئلے یعنی ان کی ملی شناخت اور قومی سیٹ اپ کے حل میں سنجیدہ ہو جائیں تو درپیش مشکلات پر قابو بھی پا سکتے ہیں اور اپنے دشمن کو مایوس اور ناکام بھی کرسکتے ہیں۔ لہذا یہ ہم سب کی دینی و ملی ذمہ داری ہے کہ ہم جی بی کے مسئلے کو ملی تناظر میں دیکھیں اور اس کے حل کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔