امریکہ، افغانستان میں داعش کی موجودگی کا حقیقی سبب
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)اتحریر: پیر محمد ملا زہی
افغانستان میں سکیورٹی بحران کی شدت میں اضافے سے جس ملک کو سب سے پہلے فائدہ حاصل ہو گا وہ امریکہ ہے۔ کیونکہ افغانستان میں بحران کی شدت میں اضافہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ملک میں اپنی فوجیں زیادہ مدت کیلئے باقی رکھنے کا مناسب بہانہ ہاتھ میں آنے کا باعث بنے گا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان میں امریکی فوج کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس مد میں خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کیلئے مناسب جواز فراہم کر سکیں۔ اگرچہ امریکہ کی صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجی باقی رکھنے پر مبنی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اب وہ بھی اسی پالیسی پر گامزن نظر آتے ہیں۔ اس وقت امریکی حکومت کے پاس افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے اور براک اوباما کی جانب سے ان پر محض مشاورتی امور کے دائرے میں رہنے کیلئے لگائی گئی محدودیت ختم کر کے براہ راست ملٹری آپریشنز کی اجازت دینے کا زیادہ بہتر بہانہ میسر ہو چکا ہے۔
دوسری طرف آئے روز تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی طرف سے انجام پانے والے خودکش دھماکوں کے تناظر میں افغانستان کے مظلوم عوام کی امن و امان قائم ہونے کی امیدیں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ دارالحکومت کابل میں داعش کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے سبب سکیورٹی کمزوریوں اور خلا کے بارے میں شدید پریشانیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں داعش کے خودکش بمباروں نے کابل میں افغان سکیورٹی فورسز کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کرنے میں مصروف تھیں۔ خودکش بمبار کسی رکاوٹ کے بغیر ایلیٹ فورس کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس واقعے سے کابل میں چھپے داعش کے خودکش بمباروں سے درپیش خطرات کی شدت کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ واقعات افغانستان کے سکیورٹی نظام میں موجود نقائص اور کمزوریوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے اب تک کابل میں انجام پانے والے تمام دہشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عراق اور شام میں عبرتناک شکست کھانے کے بعد تکفیری دہشت گروہ داعش افغانستان میں سر اٹھانے میں کیسے کامیاب ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کے جواب میں کئی متضاد دعوے کئے گئے ہیں جن کے بارے میں پورے وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ لیکن بعض ایسے شواہد موجود ہیں جس سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ ان کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ افغانستان میں داعش کی موجودگی اس ملک میں سکیورٹی بحران اور بدامنی جاری رکھنے پر مبنی اہداف سے مکمل ہم آہنگی اور مناسبت کی حامل ہے۔ لہذا اسی نقطہ نظر سے داعش کی حامی اور اسے افغانستان منتقل کرنے والی قوتوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے اور افغانستان میں داعش کی موجودگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سکیورٹی اثرات کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے انجام پانے والے خودکش بم حملے کابل میں اندرونی اختلافات جنم لینے کا بھی باعث بن رہے ہیں جبکہ موجودہ حالات کے تناظر میں افغانستان میں برسراقتدار نیشنل یونٹی حکومت ہر دور سے زیادہ اس وقت باہمی اتحاد اور قومی وحدت کو محفوظ بنانے کی محتاج ہے۔ اگر بعض اعتدال پسند طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کیلئے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں اور سیاسی عمل کے ذریعے اختلافات حل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں تو اس بات کا خطرہ پایا جاتا ہے کہ طالبان کے دیگر دھڑے ان سے علیحدہ ہو کر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش میں شمولیت اختیار کر لیں۔ لہذا اس وقت افغانستان میں داعش کا ایسا پرچم بلند کیا گیا ہے جس نے ملک کے تمام امن مخالف عناصر کو اپنے زیر سایہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے جس کا نتیجہ نہ صرف افغانستان میں بدامنی کی صورت میں ظاہر ہو گا بلکہ داعش کی طرف سے "خلافت خراسان” نامی نئے پراجیکٹ کا آغاز ثابت ہو گا جس کا دائرہ مرکزی ایشیا کے تمام علاقوں، جنوبی قفقاز، چین کے صوبے سنکیانگ سے لے کر افغانستان، پاکستان، ایران، بھارت، بنگلہ دیش اور مشرقی ایشیا تک پھیلا ہو گا۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہ میں علاقائی اور عالمی سطح پر سرگرم سکیورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیز کیلئے ایکدوسرے کے خلاف پراکسی وار کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہونے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ ایسی صورت میں خطے میں سرگرم ہر انٹیلی جنس ایجنسی دوسرے پر افغانستان میں داعش کی موجودگی اور اسے اپنے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کر سکتی ہے۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ خود تکفیری دہشت گرد گروہ داعش ان حقائق سے کس قدر آگاہ ہوتا ہے یا بالکل آگاہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے چلانے والی قوتوں کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ ان حقائق سے آگاہ نہ ہو کیونکہ اس طرح اس کی جانب سے باغیانہ رویوں کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔
نتیجہ:
افغانستان میں داعش کی موجودگی سے متعلق تمام پوشیدہ حقائق سے ہٹ کر یہ بات یقینی ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش افغانستان اور خطے میں جنگ اور بدامنی کے تسلسل پر مبنی ہدف کا حامل ایک جدید پراجیکٹ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان اپنی اہمیت کھو
دیں گے اور ان کی جگہ داعش لے لے گی۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش افغانستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں بڑھانے کے ساتھ ساتھ دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی اپنی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کر دے گا اور اس طرح "خلافت خراسان” نامی نیا شوشا اٹھ کھڑا ہو گا۔