مضامین

عرب صحراؤں میں نظریاتی بگولوں کا رقص

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) دہشت گردی کو اسلام کے ’مارکہ‘ کے ساتھ مارکیٹ میں لانے کے لئے جس طرح منصوبہ بندی تیار کی گئی، اس قوت کو میدان میں اتارنے سے قبل ایسے ادارے بھی اس کی پشت پر تیار کئے گئے جو لڑنے والوں، مرنے والوں اور مارنے والوں سب کو علمی مواد بھی دیں۔ ذہن ساتھ نہ دے تو کوئی جنگ لڑی جاسکتی ہے اور نہ مقدمہ۔ دل جیتنے کے ساتھ ذہن جیتنا بھی لازم قرار پایا۔ اسی لئے یہ سکہ جس ٹکسال میں ڈھل سکتاتھا۔ وہ بھی بڑے پیمانے پر تیار ہوئیں۔ شریعت کی سند اتنی بڑی قوت یا ضمانت ہے جو کسی بھی اور نشہ، لالچ یا طمع سے پیدا ہونہیں سکتی۔ مسلمان کی اسی فطری کمزوری کو یہاں بھی بھرپور طورپر بروئے کار لایاگیا۔ القاعدہ ہو یا پھر داعش، ایسی تنظیموں کی مار مقامی حد تک نہ تھی بلکہ یہ گروہ عالمگیر اور بین الاقوامی جتھوں اور فوج کی صورت میں خود کو متصور کرتے ہیں۔ اس اتنی بڑی جنگ کے لئے نظریاتی محاذ پر بھی کام اتنی ہی بڑی سطح پر ایک لازمی تقاضاتھا۔ چنانچہ سعودی زیراثر تجزیہ یہ بھی پھیلایا جارہا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کی پیدائش جب ہوئی تو دوسری طرف لندن میں 1997ء میں ’یورپین کونسل فار فتویٰ اینڈ ریسرچ‘ بھی وجود میں آگئی۔ یہ محض اتفاق ہے؟ کہ اس کی سربراہی یوسف القرضاوی کو ملی اور نائب کا عہدہ علی القرداغی کو تفویض ہوا۔ یہ دونوں وہی شخصیات ہیں جو بیس سال سے انتہاپسند نظریات کی ترویج میں ملوث قرار دی جاتی ہیں۔

مشرق وسطی اور یورپ میں القاعدہ کی شاخوں کی پیوند کاری کرنے کے ساتھ انتہاپسندانہ اصول قانون کو تحقیقی رنگ، ٹھوس دلائل، حوالہ جات کی بنت کاری سے فروغ دینے والی تنظیموں کا جال خلیج، عراق، لبنان، شمالی افریقہ، فرانس، جرمنی، بیلجئیم، برطانیہ اور آئرلینڈ میں پھیلایا گیا۔ دِلفریب نعروں، پْرفریب بیانات اور کھلم کھلاسرگرمیوں کے ذریعے مذہب کے نام پر ایسے اداروں اور ان سے وابستہ افراد کی شہریت پورے کے پورے فائدے کے لئے استعمال کی گئی۔ جہاد اور انتہاپسندی کے لئے جس مرحلے پر جس انتہاء پسندگروہ کو جو مذہبی حوالہ درکار تھا، انہیں ان خطرناک بدامنی کے شکار برسوں میں مسلسل مہیا ہوتا رہا۔ اب یہ احساس کرایاجارہا ہے کہ دہشت گردی کا سب سے خطرناک پہلو اس کا انتہا پسندانہ نظریہ اور سوچ ہوتی ہے۔ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اگر دین مبین کے نام پر ایسے ادارے قائم نہ ہوتے، انتہاپسند محققین میسر نہ آتے تو انتہا پسندانہ نظریہ پیدا ہی نہ ہوتا، برگ وبار لاتا اور نہ مسلح تنظیم کے وجود میں ہی ڈھل پاتا۔

خلیج کے چار اتحادیوں نے اب یہ سارا ملبہ بھی قطر کی گردن پر لادھرا ہے۔ تاسف سے قطر کو مخاطب کرکے اب شکوہ جاری ہے کہ اگر قطر ان اداروں اور افراد کی دستگیری نہ کرتا، انہیں وسائل فراہم نہ کرتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔قطر کے وسائل اور مدد کی فراہمی سے یہ ادارے پھلے پھولے، دانشورانہ کھاد اور میڈیا کی دادوتحسین سے خوب نشوونما پائی۔ اہداف کے حصول کے لئے ان میں سے بعض میڈیا کو خریدلینے کا بھی طعنہ اب زبان زدعام ہے۔
انسان ہاتھ میں قلم تھامے یا خنجر، عالم، استاد اور پیر ہی سکھاتے ہیں۔ شیطان بھی تو ’عالم‘ ہی تھا۔ مسلمانوں کے ذہنی کمپیوٹر سے چھیڑ چھاڑ کوئی راز نہیں۔ اسلامی تاریخ میں یہ ’وائرس‘ نیا بھی نہیں۔ دور ملوکیت ہو یا غلامی ہر طاقتور نے بوقت ضرورت شریعت کی چھتری حالات کی دھوپ سے بچنے یا پھر اقتدار کی چھائوں یقینی بنانے کے لئے کسی نہ کسی بہانے استعمال ضرور کی۔ شریعت کا پہرہ دینے والوں کو کربلا کا سامنا کرناپڑا۔ مصر اور سعودی فتووں سے افغانستان میں ساری دنیا سے مسلمانوں کو جہاد کے لئے جمع کرنے والے اب یہ ملبہ بھی قطر کے سر کس ڈھٹائی سے ڈال رہے ہیں۔ 1979ء سے 1989ء تک یہ دکان کون چلارہا تھا؟ یہ اتحاد شاید اب بھول گیا ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button