حضرت علی (ع) سے شہزادی (س) کی وصیتیں
شیعہ نیوز(پاکستان شیعہ خبر رساں ادارہ ) ثقافتی اوراق
زندگی کے آخری لمحات میں آپ کے لئے وہ موقع آگیا جس میں آپ نے مولائے کائنات کے سامنے وہ سب دل کی باتیں اور وصیتیں بیان کردیں جنھیں آپ نے ایک مدت سے اپنے زخمی سینے میں چھپا رکھا تھا۔ آپ نے حضرت علی ؑ سے یہ فرمایا :’’ یا بن عمّ إنّہ قد نعیت إلیّ نفسی و إنّنی لا أری ما بی إلّا أننّی لا حقۃ بأبی ساعۃ بعد ساعۃ ، أنا اوصیک بأشیاء فی قلبی‘‘اے میرے ابن عم ، میری رحلت کا وقت نزدیک آچکا ہے اور مجھے اس کے علاوہ کوئی صورتحال نہیں دکھائی دے رہی ہے کہ صرف چند ساعتوں کے بعد میں اپنے بابا سے ملحق ہوجاؤں گی لہٰذا میں آپ سے چند وصیتیں کررہی ہوں ۔ تو حضرت علی ؑ نے آپ سے فرمایا:’’ أوصنی بما أحببت یا بنت رسول اﷲ‘‘اے بنت رسول ؐ آپ کا جو دل چاہے وصیت کریں ، پھر آپ شہزادی کے سرہانے بیٹھ گئے اور بقیہ لوگوں کو گھر سے باہر بھیج دیا ۔ پھر شہزادی نے فرمایا :’’ یا بن عمّ ما عہدتنی کاذبۃ و لا خائنہ و لا خالفتک منذ عاشرتنی‘‘آپ نے مجھ سے نہ کبھی کوئی جھوٹا وعدہ کیا ہے اور نہ ہی کبھی خیانت کی ہے ، اور جب سے آپ کا اور میرا ساتھ ہوا ہے میں نے آپ کی کبھی مخالفت نہیں کی ہے ، تو مولائے کائناتؑ نے فرمایا: ’’معاذ اﷲ أنتِ أعلم باﷲ،و أبرّ و أتقی و أکرم و أشدّ خوفاً من اﷲ من أن أوبّخک بمخالفتی و قد عزّ علیَّ مفارقتک و فقدکِ إلا أنہ أمر لابد منہ ، واﷲ لقد جددت علیَّ مصیبۃ رسول اﷲ وقد عظمت وفاتک و فقدک فإنّا ﷲ وإنّا الیہ راجعون من مصیبۃ ما أفجعہا و آلمہا و أمضّہا و أحزنہا!! ہذہ مصیبۃ لا عزاء منہا، ورزیۃ لا خلف لہا‘‘معاذ اللہ ، اللہ کی قسم ، آپ تو خود ہی نہایت صاحب علم ، نیک ، باتقویٰ ، کریم النفس اور شدید خوف الہٰی کی مالک ہیںآپ کیوں میری مخالفت کرتیں اور میں کیوںآپ کی توبیخ کرتا ،آپ کی وفات میرے لئے نہایت شاق اور دشوار ہے ، بس ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں ۔ ایسی مصیبت کی وجہ سے جو کتنی غم انگیز ، درد و الم سے پر اور رنج و محن سے بھری ہوئی ہے یہ ایسی مصیبت ہے جس کی تسلی ممکن نہیں اور ایسی سخت مصیبت کی گھڑی ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہے ۔ پھر دونوں مل کرتادیر روتے رہے مولائے کائناتؑ نے شہزادیؑ کا سر اپنے سینہ سے لگا کر فرمایا: ’’أوصینی بما شئت فإنّکِ تجدینی وفیاً أمضی کلّما أمرتنی بہ ، وأختار أمرکِ علی أمری ‘‘تمہارا جو دل چاہے مجھ سے وصیت کردو اور تم جو حکم بھی دوگی مجھے اس کا پابند (وفادار) اور اپنے کاموں پر تمہارے کاموں کو ترجیح دینے والا پاؤگی تو شہزادی نے کہا :’’جزاک ا ﷲ عنّی خیرالجزء ، یابن عمّ اوصیک أولًا:أن تتزوّج بعدی … فإنّ الرجال لابدّ لہم من النساء‘‘اللہ آپ کو میرے بارے میں جزائے خیر دے اے ابن عم آپ سے میری پہلی وصیت یہ ہے : میرے بعد شادی کیجئے گا …کیونکہ مردوں کے ساتھ کوئی عورت ہونا ضروری ہے ، پھر آپ نے فرمایا:’’اوصیک أن لا یشہد أحد جنازتی من ہٰولاء الذین ظلمونی فإنّہم عدوّی وعدوّ رسول اﷲ ، ولاتترک أن یصلّی علیّ أحد منہم ولا من أتباعہم ، واد فنی فی اللیل إذا ہدأت العیون ونامت الأبصار‘‘ آپ سے میری یہ وصیت ہے کہ جن لوگوں نے میرے اوپر ظلم کیا ہے ان میں سے کوئی بھی میرے جنازہ پر نہ آنے پائے کیونکہ یہ میرے اور رسول اللہ ؐکے دشمن ہیں ، اور اسی طرح ان کو اور ان کا اتباع کرنے والوں کو میری نماز جنازہ نہ پڑھنے دیجئے گا اور مجھے رات میں اس وقت دفن کیجئے گا جب اور آنکھیں سو جائیں اور بصارت پر نیند غالب ہو جائے۔
پھر آپ نے فرمایا: ’’یابن العمّ إذا قضیت نحبی فاغسلنی ولا تکشف عنّی، فانّی طاہرۃ مطہّرۃ ، وحنّطنی بفاضل حنوط أبی رسول اﷲ (ص) وصلّ علیّ ، ولیصلِّ معک الأدنی فالأ د نی من أہل بیتی ، وادفنی لیلاً لا نہاراً ، وسرّاً لاجہاراً، وعفّ موضع قبری ، ولا تشہد جنازتی أحداً ممن ظلمنی ، یابن العمّ أنا أعلم أنّک لا تقدر علی عدم التزویج من بعدی فإن أنت تزوّجت امرأۃ اجعل لہا یوما ولیلۃ ، واجعل لأولادی یوما ولیلۃ ، یا أباالحسن ! ولا تصح فی وجوہہما فیصبحا یتیمین غریبین منکسرین ، فإنّہما،بالأمس فقداجدّہما والیوم یفقدان امہما‘‘جب میری رحلت ہوجائے تو مجھے میرے کپڑوں میں غسل دیجئے گا کیونکہ میں طاہرہ و مطہرہ ہوں اور رسول اللہ ؐکے بچے ہوئے حنوط سے مجھے حنوط دیجئے گا اور خود ہی میری نماز جنازہ پڑھایئے گا اور آپ کے ساتھ میرے تمام گھروالے (قریبی سے قریبی)سب نماز پڑھیں مجھے رات میں دفن کیجئے گا نہ کہ دن میں ، اور خاموشی کے ساتھ نہ کہ علی الاعلان ، اور میری قبر کا نشان مٹا دیجئے گا اور جن لوگوں نے میرے اوپر ظلم کیا ہے ان میں سے کسی کو میرے جنازہ پر نہ آنے دیجئے گا اے ابن عم ، مجھے معلوم ہے کہ میرے بعد آپ کے لئے شریکۂحیات کے بغیر رہنا مشکل ہوگا لہٰذا اگر آپ کسی سے شادی کریں تو ایک دن اس کے یہاں اور ایک دن میرے بچوں کے ساتھ رہئے گا ، اے ابو الحسن ، ان کو ڈانٹئے گا نہیں کہ وہ یتیموں ، اور مسافروں کی طرح شکستہ حال ہوجائیں کیونکہ کل انہوں نے اپنے نانا کا فراق دیکھا ہے اور آج اپنی ماں سے جدا ہو رہے ہیں ۔
ابن عباس نے آپ کی لکھی ہوئی ایک وصیت کی روایت بھی کی ہے جس میں یہ تحریر تھا : ’’ہٰذا ماأوصت بہ فاطمۃ بنت رسول اﷲ(ص)أوصت وہی تشہد أن لا إلہ إلااﷲ وأنّ محمّدا عبدہ ورسولہ ، وأنّ الجنّۃ حقّ والنار حقّ ، وأنّ ال
ساعۃ آتیۃ لاریب فیہا، وأنّ اﷲیبعث من ۱۔ روضۃ الواعظین : ج۱،ص۱۵۱ ،ایک روایت میں ’’ اذا ھدات الاصوات و نامت العیون ‘‘ وارد ہوا ہے۔
فی القبور ، یاعلیّ أنا فاطمۃ بنت محمّد ، زوّجنی اﷲ منک لأکون لک فی الدنیا و الآخرۃ ، أنت أولی بی من غیری ، حنّطنی و غسّلنی و کفّنی باللیل ، و صلِّ علیَّ وادفنی باللیل ، و لا تعلم أحداً ، و أستودعک اﷲ ، و أقرا علیٰ ولدیّ السلام إلی یوم القیامۃ‘‘ یہ رسول اللہ کی بیٹی فاطمہؐؐ ؑ کی وصیت ہے ، یہ وصیت اس حال میں کر رہی ہیں کہ وہ گواہی دیتی ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور حضرت محمد ؐاس کے بندہ اور رسول ہیں اور جنت حق ہے ، جہنم حق ہے ، قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے اور جو بھی قبروں میں ہیں اللہ ان سب کو محشور کرے گا ، اے علی ! میں فاطمہؐؐ ، بنت محمد ؐہوں اللہ تعالی نے آپ سے میری شادی کی تھی تاکہ دنیا و آخرت میں آپ کے ساتھ رہوں آپ میرے بارے میں دوسروں سے اولیٰ ہیں ، مجھے رات میں حنوط دیجئے گا ، غسل دیجئے گا اور کفن پہنائیے گا اور میرے اوپر نماز پڑھ کر رات ہی میں دفن کردیجئے گا اور کسی کو، خبر نہ کیجئے گا ، اور میں آپ کو اللہ کے سپرد کرتی ہوں اور قیامت تک اپنی اولاد کو سلام کہتی ہوں