پاکستان میں عدل علی (ع) کے قیام کا راستہ
شیعہ نیوز(پاکستان شیعہ خبر رساں ادارہ ) تحریر: کاظم رضا
اس دنیا میں رہتے ہوئے ہمیں کبھی کبھار ایسے حقائق کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، جن سے نظریں چرانا، منہ موڑنا، اُنہیں جھٹلانا یا باقی دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہم ان حقائق پر لاکھ پردے ڈالیں، جھوٹے دلائل کے انبار لگا دیں، اپنی آواز سب آوازوں سے بلند کر لیں مگر پھر بھی حقیقت بناوٹ کے اصولوں سے نہیں چھپتی اور خوشبو کبھی بھی کاغذ کے پھولوں سے نہیں آتی۔ حقائق حقائق ہی رہتے ہیں اور جھوٹے دلائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز اور مدھم پڑتے جاتے ہیں اور بالآخر ایک دن بے نام و نشان رہ جاتے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اس کا مقصد اسلام کی سربلندی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مختلف صوبوں، علاقوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو جس قوت نے ایک متحدہ قوم بنا دیا، وہ قوت اسلامی نظریہ تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام عمل میں آنا بلاشبہ پاکستان کے عوام کیلئے قدرت کا ایک بہت بڑا انعام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہم اپنی کوتاہ اندیشیوں اور اغیار کی آغوش میں پروان چڑھنے والے خود غرض لیڈروں کی سازشوں کے باعث ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوگئے اور مختلف مکاتب اسلامی میں شدت پسند عناصر کو استعمال کرتے ہوئے اس ملک کو عملی طور پر ایک اسلامی ملک نہیں بننے دیا گیا۔ اس ملک کا قانون اسلامی ہے لیکن آج تک اس کے نفاذ کی کسی کو جرات اور ہمت نہ ہوئی۔
آج پاکستان میں ہر مکتب اسلامی کا شعار "اسلامی نظام کا نفاذ ” ہے، لیکن کیا یہ سب ممکن ہے؟ آج اگر میں یہ دعوٰی کرتا ہوں کہ میرا منشور عدل علی کا قیام ہے، یعنی "اسلامی نظام کا نفاذ "ہے تو میرے پاس اس ہدف تک پہنچنے کے لئے کونسے راستے موجود ہیں؟ پاکستان میں میرے مکتب کے پیروکاروں کی تعداد تقریباً 25 فیصد ہےم جبکہ باقی تقریبا 72 فی صد آبادی دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی، اھل حدیث پر مشتمل ہے اور تین فی صد غیر مسلم۔ ظاہری طور پر میرے پاس دو راستے موجود ہیں۔ ایک راستہ اپنی سیاسی قوت کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اور دوسرا راستہ خروج، جہاد و انقلاب کا راستہ کہ جو بھی میرے نظریات و اعتقادات کا مخالف ہو، اُسے مغلوب کر دیا جائے، جس طرح تکفیریوں کا نقطہ نظر اور طرز عمل ہے۔ یہ دوسرا راستہ شیعیان پاکستان کے لئے قابل عمل نہیں ہے۔ اب ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ سیاسی قوت کے ذریعے ہم اپنے ہدف اور مقصد کو حاصل کریں۔ تو یہاں پر بھی ہمارے سامنے دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ ہم مستقل طور پر اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ میدان میں اتریں یا دیگر مکاتب اسلامی کو اعتماد میں لے کر اختلافات سے قطع نظر مشترکات پر جمع ہوکر اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کریں اور ملک میں لبرل ازم و بے دینی کا راستہ روکیں۔
پہلی صورت کہ ہم اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ ہی اپنے اہداف کے حصول کی کوشش کریں، ممکن نہیں کیونکہ اگرچہ دیگر تمام اسلامی مسالک کے باہمی اختلافات ہم سے کہیں زیادہ ہیں، لیکن وہ سب ہمارے بھی حامی نہیں ہیں، لہذٰا ہم اپنے ہدف کے حصول کے لئے دیگر مکاتب اسلامی کی ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ اپنے ھدف تک پہنچنے کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی قابل عمل راستہ موجود نہیں ہے۔ جب یہ بات طے ہوگئی ہے کہ ہم نے پاکستان میں اگر اسلامی نظام اور عدالت علویہ کا قیام عمل میں لانا ہے تو دیگر مکاتب اسلامی کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، ورنہ ھدف کا حصول مشکل ہے، تو یہاں پر ایک نیا سوال اُبھرتا ہے کہ مکتب دیوبند و بریلویوں میں اس اتحاد کے لئے کونسے لیڈر سب سے بہتر ہیں اور جماعت اسلامی و اہلحدیث میں کونسے راہنما سب سے زیادہ مناسب ہیں کہ جنکے ساتھ اس هدف کے حصول کے لئے اتحاد کیا جاسکے۔ لٰہذا عقل سلیم کا تقاضا یہی ہے کہ ان میں سے جو برجستہ، سیاسی بصیرت رکھنے والے، ہمارے ساتھ مشترکات پر مل بیٹھنے والے اور اپنے مکتب کے پیروکاروں میں کوئی محل اعراب رکھنے والے لیڈر ہیں، انکا انتخاب کیا جائے اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کی جائے، تاکہ جس مقصد کے تحت ہم نے پاکستان بنایا تھا، اس کو عملی جامہ پہنا کر اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرسکیں۔