پاکستانی شیعہ خبریں

لشکر جھنگوی کی جنگ اب براہ راست پاک افواج سے ہوگی

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)17 مئی کی رات کو کوئٹہ میں واقع فرنٹیئر کور بلوچستان کے مددگار سینٹر پر لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے اچانک حملہ کر دیا۔ پانچوں حملہ آوروں نے پولیس کی ریپڈ رسپانس گروپ (آر آر جی) کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ پہلے ایک حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے ایف سی مددگار سینٹر کے داخلی دروازے پر دھماکہ کیا۔ اس دوران باقی چار خودکش حملہ آوروں نے مددگار سینٹر کے اندر گھسنے کی کوشش کی۔ ایک حملہ آور اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوا، تاہم کچھ ہی فاصلے پر ایف سی اہلکاروں کے ساتھ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور اسے آگے جانے نہیں دیا، جس پر اس نے بھی خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ باقی تین خودکش حملہ آوروں کو ایف سی اہلکاروں نے مددگار سینٹر کے اندر جانے کا موقع نہیں دیا، اس دوران فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ جدید اسلحہ سے لیس خودکش حملہ آوروں نے ایف سی اہلکاروں پر یکے بعد دیگرے کئی دستی بم پھینکے۔ ایک گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہنے کے بعد تینوں خودکش حملہ آور فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔ تینوں حملہ آوروں کے جسموں سے بندھی خودکش جیکٹس پھٹ نہ سکیں۔ سکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آوروں کو مارنے کے بعد علاقے کی کلیئرنس کرکے آپریشن مکمل کر لیا۔ حملے میں ایف سی کے سات اہلکار زخمی اور ایک پولیس اہلکار بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔ فرنٹئیر کور بلوچستان پر اس سے پہلے بھی کئی دہشتگردانہ حملے ہوچکے ہیں، جو کہ ٹارگٹ کلنگ یا زیادہ تر روڈ کے کنارے نصب ٹائم بم کی حد تک محدود تھے۔ ایف سی کے مرکزی دفتر پر ہونے والا مذکورہ حملہ دہشتگردوں کی جانب سے اپنی نوعیت کا پہلا منظم حملہ ہے، جس میں‌ لشکر جھنگوی کے دہشتگرد براہ راست ملوث تھے۔ اس سے قبل ایف سی فورس پر ہونے والے حملوں کی زیادہ تر ذمہ داری بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں نے قبول کی ہے۔

بلاشبہ لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے ایف سی پر یہ حملہ اپنے صوبائی امیر سلمان بادینی کی ہلاکت کے ردعمل میں کیا، جو اس کے ایک روز قبل سکیورٹی فورسز کے خفیہ آپریشن میں مارا گیا تھا، جس کے دوران ملٹری انٹیلیجنس کے کرنل سہیل عابد بھی شہید ہوئے تھے۔ لشکر جھنگوی نے 1998ء میں پہلی مرتبہ شیعہ ہزارہ مسلمانوں کو کوئٹہ کے پدگلی چوک پر نشانہ بنایا، لیکن چونکہ پولیس فورس کو شہر کا امن و امان برقرار رکھنے کے لئے لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا، اسی لئے کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ قوم کے ساتھ ساتھ پولیس فورس بھی اس دہشتگرد تنظیم کے ہٹ لسٹ میں شامل ہوگی، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیزی آتی گئی۔ 23 اپریل 2012ء کو ڈی آئی جی پولیس قاضی عبدالواحد اپنے قافلے کے ہمراہ کرانی روڈ کوئٹہ سے گزر رہے تھے کہ اس دوران دو دہشتگردوں نے ان پر فائرنگ کھول دی، جو کہ پولیس کی جوابی کارروائی میں مارے گئے۔ اگلی صبح لشکر جھنگوی کی جانب سے یہ اعتراف سامنے آیا کہ گذشتہ روز پولیس مقابلے میں مارے جانے والے دہشتگرد ان کی تنظیم کے ترجمان علی مراد عرف علی شیر حیدری تھے۔ 2016ء کو کوئٹہ کے ایک اور ڈی آئی جی حامد شکیل نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "ڈی آئی جی قاضی عبدالواحد نے مذکورہ واقعے کے بعد لشکر جھنگوی کے کمانڈر سے معافی مانگتے ہوئے یہ ساز باز کی تھی کہ علی مراد عرف علی شیر حیدری کی ہلاکت کے ردعمل میں انہیں نہیں مارا جائے گا۔” اس واقعے کے دو سال بعد یعنی 2 ستمبر 2015ء کو ریٹائرمنٹ لینے کے بعد ڈی آئی جی قاضی عبدالواحد کو ان کے گھر کے باہر لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ یہی نہیں بلکہ دہشتگرد علی مراد عرف علی شیر حیدری کی ہلاکت کے ردعمل میں بروری تھانے کے ایس ایچ او امیر محمد دشتی اور ان کے بھائی ڈی ایس پی حمیداللہ دشتی کو بھی مارا گیا۔

انٹرویو دینے کے ایک سال بعد ڈی آئی جی حامد شکیل کو بھی 9 نومبر 2017ء میں خودکش حملے کے ذریعے شہید کر دیا گیا۔ اسی طرح 9 اگست 2013ء کو پولیس لائن کوئٹہ میں ڈی آئی جی فیاض سنبھل پر خودکش حملہ کیا گیا، جس میں وہ شہید ہوگئے۔ قاضی عبدالواحد کے برعکس فیاض سنبھل نے لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں کے خلاف کئی ٹارگٹڈ آپریشن کئے، جن میں تنظیم کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ ان آپریشنز میں ڈی آئی جی سید مبین احمد بھی ان کے ہمراہ موجود ہوتے تھے اور انہیں بھی 13 فروری 2017ء کو لاہور میں خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ انسداد دہشتگردی فورس بلوچستان کے ڈی آئی جی اعتزاز گوریہ کا کہنا ہے کہ 2013ء سے لیکر اب تک بلوچستان پولیس پر 100 سے زائد حملے ہوچکے ہیں، جن میں کئی ڈی آئی جی، ایس پی اور ڈی ایس پی رینک کے آفیسرز بھی شہید ہوئے ہیں۔ گذشتہ دنوں جب کوئٹہ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شیعہ ہزارہ قوم کے اکابرین سے ملاقات کی، تو انہوں نے اپنی جانب سے سکیورٹی کی فراہمی کی بھرپور یقین دہانی کرائی۔ اس ملاقات میں شامل ایک رہنماء‌ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بتایا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے بچوں کے سر کی قسم کھا کر کہا کہ کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ قوم کے قتل عام میں ریاست قطعاً ملوث نہیں۔ ملاقات کے دوران آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ جب میری عمر چھ سال کی تھی، تب میرے والد فوت ہوگئے اور بعدازاں میری تربیت ایک شیعہ سادات گھرانے میں ہوئی۔ میں یہ کیسے برداشت کرسکتا ہوں کہ میرے اپنے ملک میں شیعہ مسلمانوں کا خون بہے۔؟ آرمی چیف نے کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اہلیہ کا تعلق بھی اہل تشیع سے ہے اور کور کمانڈر کوئٹہ ہونے کی حیثیت سے جنرل عاصم سلیم آپ کے تحفظ کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ شیعہ ہزارہ قوم کے قتل عام میں ملوث تمام دہشتگردوں کو دوگنے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یقین دہانی کے اگلے ہی دن لشکر جھنگوی کے متعدد دہشتگردوں کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا، جبکہ بعض کو آپریشنز میں ہلاک کر دیا گیا۔ لشکر جھنگوی کی ہٹ لسٹ میں‌ بلاشبہ شیعہ ہزارہ قوم اور پولیس کے بعد اب ایف سی سمیت پاک فوج سے منسلک دیگر فورسز بھی شامل ہوگئی ہیں، جس کی ایک مثال ہمیں گذشتہ شب ایف سی کے دفتر پر ہونے والے حملے کی صورت میں دیکھنے کو ملی۔ بلوچستان میں اس وقت بلوچ آزادی پسند تنظیموں سے کہیں زیادہ مہلک لشکر جھنگوی اور داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں ہیں، جس کا اعتراف جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ بھی اسلام ٹائمز کو دیئے گئے انٹرویو میں کرچکے ہیں۔ ماضی کے واقعات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں یہ تنظیم کسی بھی ریاستی ادارے کے سربراہ کو ٹارگٹ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے، لہذا انہیں کاؤنٹر کرنے کے لئے روایتی طریقوں سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نیٹ ورک کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ ان اقدامات میں پاک افغان بارڈر کی سخت نگرانی اور باڑ کی مکمل تنصیب کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ لشکر جھنگوی کے ان دہشتگردوں کے کیمپس افغانستان کے ایسے علاقوں میں واقع ہے، جہاں خود افغان حکومت کی رٹ بھی نہیں، لہذا پاکستان کی حکومت کو سفارتی اور سیاسی طریقے سے افغانستان میں اس مسئلے کا حل نکالنے کی ضرورت ہوگی، جبکہ ملک کے اندر نیکٹا کو عملی طور پر مکمل فعال بنانا ہوگا، جس کی بدولت ملک کے تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں اصلاحات، تبلیغی جماعتوں کی فنڈنگ کی نگرانی سمیت سرکاری و نجی اداروں کے سربراہوں کی نگرانی بھی شامل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button