کراچی، لشکر جھنگوی اور داعش کے 2 اعلٰی تعلیم یافتہ افراد سمیت 3 دہشتگرد گرفتار
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے مبینہ طور پر کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے 3 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں سے 2 کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں۔ سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سی ٹی ڈی جنید احمد شیخ کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد میں سے ایک ڈیرہ اسمٰعیل خان میں عوامی یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر ہیں، دوسرے نے کراچی کی نامور یونیورسٹی سے گریجویشن کر رکھی ہے اور تیسرے مشتبہ شخص مذہبی اسکالر ہیں جو آن لائن قرآن پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یونیورسٹی کے استاد افغانستان میں نیٹو پر حملے، پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہیں۔ ایس ایس پی شیخ کا کہنا تھا کہ تینوں ملزمان شاہسوار، مجیب الرحمٰن اور خالد پرویز کو کراچی میں جوبلی کے علاقے سلطان آباد میں سی ٹی ڈی کی جانب سے چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا، جن کے قبضے سے چندے کی پرچیاں بھی بر آمد ہوئیں۔ سینیئر حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزمان رمضان کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے چندہ جمع کیا کرتے تھے۔ گرفتار مجیب الرحمٰن جس کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے بتایا گیا کو سی ٹی ڈی کی جانب سے گذشتہ دنوں بھی گرفتار کیا گیا تھا، تاہم جیل سے رہائی پانے کے بعد وہ دوبارہ سے فرقہ پرست تنظیم کے ساتھ کام کرنے لگے تھے اور چندہ اکٹھا کرنے کے علاقہ وہ نوجوانوں کو بھی وہ اس کام میں لانے کی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ دوسرے مشتبہ شخص خالد پرویز آئی ٹی کے ماہر ہیں، جو کراچی کے ایک نجی ادارے میں ملازم ہیں اور انہوں نے ایک نامور یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری بھی لے رکھی ہیں، ان کا تعلق داعش سے بتایا گیا ہے۔
دریں اثناء انہوں نے مزید دعوٰی کیا کہ شاہسوار ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سرکاری یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر ہیں اور وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اہم رکن ہیں۔ مشتبہ افراد نے ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان میں نیٹو فورسز کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں کئی جانیں ضائع ہوئی تھیں، شاہسوار کے کئی ساتھی افغانستان میں مارے بھی جا چکے ہیں۔ سی ٹی ڈی افسر نے انکشاف کیا کہ شاہسوار ٹی ٹی پی کی شورٰی کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناءاللہ عباسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شاہسوار نے ڈیرہ اسمٰعیل خان کی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے جنوبی وزیرستان سے جلا وطنی کے بعد سابق ٹی ٹی پی لیڈر بیت اللہ محسود کی دعوت پر اسکا حصہ بنے تھے۔ شاہسوار نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ بیت اللہ محسود کے قتل کے بعد ٹی ٹی پی میں 2009ء میں ولی رحمٰن اور حکیم اللہ میں قیادت پر تنازعہ پیدا ہو گیا تھا اور اس ہی دوران دہشت گرد تنظیم نے سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد شاہسوار اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گیا تھا۔ 2013ء میں شاہسوار نے دوبارہ وزیرستان کا سفر کیا، جہاں اس نے دیگر کے ہمراہ مل کر افغانستان کا سفر کیا اور وہاں انہوں نے نیٹو کے کیمپ اور چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا، تاہم جوابی فضائی حملے میں ان کے 25 ساتھی ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد شاہ سوار 2015ء میں کراچی واپس آ گیا تھا۔ انہوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انہوں نے جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا، جس کے علاوہ شاہسوار دسمبر 2007ء کو کرم ایجنسی کے علی زئی کے علاقے میں فرقہ ورانہ تشدد میں بھی ملوث تھے۔
دوسرے مشتبہ شخص مجیب الرحمٰن کا تعلق بالاکوٹ سے بتایا گیا، وہ 2001ء کو کراچی آیا اور یہاں اس نے ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کی، جس کے بعد وہ 2008ء کو مذہبی اسکالر بنا۔ بعد ازاں رحمٰن نے شہر میں اپنا مدرسہ کھولا اور اپنے گاؤں کے ساتھیوں کے اصرار پر لشکر جھنگوی میں شمولیت اختیار کی۔ رحمٰن نے سی ٹی ڈی کو بتایا کہ وہ آن لائن قرآن پاک کے کورسز پڑھاتا اور تقریباً 18 ہزار ماہانہ کماتا ہے۔ تیسرے مشتبہ شخص خالد پرویز نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ ایک نجی ادارے میں آئی ٹی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتا ہے، جس میں 30 سے 35 افراد ملازمت کرتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ عرفان احمد زبیری کے دوست بنے تھے، جن کے ہمراہ وہ مذہبی جلسوں میں شرکت کرتے تھے، بعد ازاں انہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ سینیئر افسر کا کہنا تھا کہ عرفان احمد داعش کا انتہائی اہم رکن ہے، جو افغانستان میں قیام پذیر ہیں۔ افسر نے دعویٰ کیا کہ خالد پرویز نے مبینہ طور پر داعش کو آئی ٹی سے متعلق امور پر معاونت کی تھی۔ سی ٹی ڈی سندھ کے سربراہ ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردانہ کارروائیاں حال ہی میں ہوئی تھیں، تاہم اب صورتحال انتہائی بہتر ہے۔