لاپتہ شیعہ نوجوانوں کی نعشیں برآمد، قاتل کون؟
شہید نوید حسین کے بھائی ذوالقرنین حیدر نے اپنے بھائی کی شہادت کے بعد اسلام ٹائمز کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ شہید نوید حسین اپریل 2010ء کو لاہور سے بھکر آ رہا تھا کہ اچانک راستہ میں ہی اس موبائل نمبر بند ہو گیا اور اس کے بعد ہمیں اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا،
26 سالہ نوید نہ تو کسی کیس میں ملوث تھا اور نہ ہی کبھی اس کو پولیس نے گرفتار کیا، ان کا کہنا تھا کہ گمشدگی کے بعد ہم نے لاپتہ ہونے کے حوالے سے درخواست دی، اس کے بعد اب جا کر ایک ماہ قبل جھنگ میں اس کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ ان کے اغواء اور قتل میں کون ملوث ہے
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں نوید حسین اور ظفر علی تقریباً 2 سال قبل لاپتہ ہو گئے تھے، لواحقین نے اپنے جگر گوشوں کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، تاہم ہمیشہ ناکامی ہی انکا مقدر ٹھہری، پولیس سے بھی رابطہ کیا گیا اور عدالتوں کے دروازے پر بھی دستک دی گئی، اس سب کے باوجود نوجوانوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا کہ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ بستی استرانہ ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی نوید حسین ولد امداد حسین کے گھر والوں پر 11 اپریل کو یہ خبر بجلی بن کر گری کہ ”ان کے لاپتہ پیارے کی نعش ضلع میانوالی کے علاقہ کندیاں سے برآمد ہوئی ہے” شوہر، بیٹے اور داماد کی شہادت کا غم برداشت کرنے والی 67 سالہ ماں گلزار بی بی کے پاوں تلے سے اس وقت زمین ہی نکل گئی جب اسے یہ خبر ملی کی کہ وہ بیٹا جس کے لئے مدت سے چشم انتظار تھی، اس طرح مظلومیت میں درندگی سے قتل کر دیا گیا ہے۔
دوسرے ہی روز ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ تحصیل پہاڑپور کے قریب دوسرے لاپتہ نوجوان ظفر علی جاڑا کی نعش برآمد ہوئی، شروع میں پولیس نے نعش کی شناخت نامعلوم کے طور پر کی، اور بعض اخبارات میں بھی خبر نامعلوم نعش کی برآمدگی سے متعلق شائع ہوئی، ظفر علی ولد محمد حسین جاڑا وانڈا دست علی تحصیل پہاڑ پور ڈیرہ کا رہائشی تھا، اور یہ بھی 21 ماہ قبل پر اسرار طور پر لاپتہ ہو گیا تھا۔
دونوں نوجوانوں کو کس نے اغواء کیا؟ کہاں رکھا گیا؟ کیوں اور کس نے قتل کیا۔َ؟ اس بارے میں تو تاحال کچھ معلوم نہیں ہو سکا، البتہ دونوں نوجوانوں کے حوالے سے تین باتیں مشترک ہیں۔
1۔ دونوں کو ہی اغوا کیا گیا تھا۔
2۔ ایک ساتھ نعشوں کی برآمدگی
3۔ دونوں کو ہی سر میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔
نوید حسین کی بہشت حسین کوٹلی امام حسین جبکہ ظفر علی جاڑا کی امام بارگاہ وانڈا دوست علی تحصیل پہاڑ پور ڈیرہ اسماعیل خان میں تدفین کر دی گئی۔
”نامعلوم” ہاتھوں سے قتل ہونے والے نوید حسین کی والدہ نے گزشتہ ماہ اسلام ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ”میرے بیٹے نوید حسین کو گزشتہ 2 سال سے خفیہ ایجنسیوں نے غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے۔ یکم فروری 2011ء کو سپریم کورٹ میں رٹ نمبر HR965 دائر کی۔ 10 فروری کو دیگر 3 شیعہ نوجوان جو پولیس کی تحویل میں تھے، رہا کر دئیے گئے۔ مگر میرا بیٹا تاحال لاپتہ ہے۔” نوید حسین کی والدہ کی جانب سے یہ دعویٰ کہ ”اس کے بیٹے کو خفیہ ایجنسیوں نے غیرقانونی حراست میں رکھا ہے۔” بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ واضح رہے کہ شہید نوید حسین کا ایک بھائی، والد، بہنوئی اور ماموں بھی جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
شہید نوید حسین کے بھائی ذوالقرنین حیدر نے اپنے بھائی کی شہادت کے بعد اسلام ٹائمز کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ شہید نوید حسین اپریل 2010ء کو لاہور سے بھکر آرہا تھا کہ اچانک راستہ میں ہی اس کا موبائل نمبر بند ہو گیا اور اس کے بعد ہمیں اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا، 26 سالہ نوید نہ تو کسی کیس میں ملوث تھا اور نہ ہی کبھی اس کو پولیس نے گرفتار کیا، ان کا کہنا تھا کہ گمشدگی کے بعد ہم نے لاپتہ ہونے کے حوالے سے درخواست دی، اس کے بعد اب جا کر ایک ماہ قبل جھنگ میں اس کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے، شہید کے بھائی کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ ان کے اغواء اور قتل میں کون ملوث ہے۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ ایک سنگین مسئلہ کی صورت اختیار کر گیا ہے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں کیس بھی زیر سماعت ہے، جس میں اب تک متعدد لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جا چکا ہے تاہم اس وقت بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد لاپتہ ہے۔ نوید حسین اور ظفر علی جیسے نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کے بعد نعشوں کی برآمدگی ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ اس حوالے کون ذمہ داری لینے کو تیار ہے کثح نہیں کہا جا سکتا، تاہم شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ضرور ہے۔ اور اس حوالے سے خفیہ اداروں پر انگلیاں اٹھنا کسی طور پر بھی ملکی مفاد میں نہیں۔