مضامین

برصغیر میں مذہبی تفرقہ انگیزی صہیونیت کے مفاد میں ہے: ڈاکٹر سلطان شاہی

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر:ڈاکٹر سلطان شاہی

خیبر: بھارت اسرائیل تعلقات اس ملک کے اسلامی معاشرے کو کن مشکلات سے دوچار کر سکتے ہیں؟
۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلے سے ایک زخمی ہڈی پائی جاتی ہے؛ مسئلہ کشمیر۔ برصغیر کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا یعنی ہندوستان اور پاکستان بنانا اور پھر تقسیم در تقسیم کرنا پاکستان اور بنگلادیش بنانا اور پھر اکثریتی مسلمان ریاست کشمیر کو متنازع چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ہند و پاک کو ایک دوسرے کے دست و گریبان کرنا اور دونوں کو اس مسئلے میں الجھا کر کمزور بنانا، یہ تمام مسائل کے پیچھے مجھے یقین ہے عالمی صہیونیت کا ہاتھ ہے اور یہ ان کے ذریعے مانیٹرنگ ہو رہے ہیں۔ اگر ہندوستان اور پاکستان کے عوام فرقہ واریت کے الجھاؤ سے باہر نکل آئیں اور سامراجی طاقتوں کے ذریعے مذہب کے نام پر پیدا کئے جانے والے اختلافات کو نظر انداز کر کے اپنے معیشتی مسائل پر توجہ دیں اور دونوں ریاستیں مل کر اپنے عوام کی ترقی اور بہتری کے لیے باہمی سرمایہ کاری کریں تو یقینا صہیونی مقاصد اس اقدام سے ناکام ہوں گے اور ان کے لیے یہ اقدام ناگوار گزرے گا۔
ہندوستان میں کسی بھی طرح کا مذہبی اختلاف چاہیے وہ مسلمانوں کے اندر آپسی طور پر ہو یا ہندو مسلم پلیٹ فارم پر ہو، یقینا صہیونیت کے فائدے میں ہے۔ صہیونی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اس قسم کا اختلاف پیدا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سوراغ ڈھونڈیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہندوستان میں بابری مسجد کا مسئلہ ہوا اس دور میں بھی یہ کہا جاتا تھا کہ اس مسئلے کے پیچھے بھی صہیونیوں کا ہاتھ تھا کہ کچھ صہیونیوں نے غیر مستقیم طور پر ہندو کو ابھارا اور مسلمانوں کو ان کے خلاف اٹھنے پر مجبور کیا اور پھر جو قتل و غارت وجود میں آئی ان سب مسائل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ملت اور ایک قوم آپس میں دست و گریباں ہوئی۔ آپ دیکھیں کہ ایک طرف ہندوستان کو ایٹمی اسلحے سے لیس کیا جاتا ہے اور دوسری طرف پاکستان کو اور پھر دونوں کے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کے عوام کی معیشتی صورتحال دیکھیں، آپ ہندوستان کے عوام کی غربت اور ناداری دیکھیں کبھی کسی نے اس صورتحال کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیکن ان دونوں کو عسکری اعتبار سے اس قدر مستحکم کیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے کو آپس میں محاذ آراء کیا جا رہا ہے کہ یہ کبھی بھی ترقی اور پیشرفت کے لیے سلامتی اور امنیت کا احساس نہ کر سکیں۔
پاکستان میں اکثر جمہوری حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوت یا دوسری پارٹیوں کی بغاوت سامنے آتی ہے۔ جونہی ملک میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ آپ ایران کو دیکھ لیں، میں آپ کو ایک مثال دیتا ہے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو کشمکش چل رہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بالخصوص صہیونی یہ بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ علاقے کی تمام وہ فوجیں جو اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں ان کو کمزور کریں یا نابود کریں۔ علاقے کی ہر طاقتور فوج کو کمزور بنائیں۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں سب سے طاقتور فوج مصر کی تھی لیکن آج وقت مصر کی کیا صورتحال ہے۔ لیبیا کو کس طرح کمزور بنایا گیا؟ شام کو کس طرح ختم کیا؟ عراق جو ایک طاقتور ملک تھا کو ایران کے خلاف کھڑا کیا، پھرعراق کے ذریعے کویت پر چڑھائی کروائی، اور آخر میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور آج داعش کو ان پر مسلط کیا، اب عراق میں کچھ بھی باقی نہیں بچا، یمن کو بھی ایسے ہی ختم کیا سعودی عرب کو یمن کے خلاف یمن کو سعودی عرب کے خلاف، اب وہ یہ چاہتے ہیں ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ چھیڑیں کہ مسلمانوں کے پیسے سے مسلمان ملکوں کو نابود کریں، سعودی عرب کچھ بھی ہو ایک اسلامی ملک ہے اسلامی منابع کا حامل ہے۔ یہ جنگیں کس کے فائدے میں ہے؟ یقینا صہیونیوں کے فائدے میں ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہندوستان و پاکستان کی ہے عوام کی معیشت کا خیال رکھا جائے لوگوں کی مشکلات کا حل کیا جائے لوگ کتنے برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن حکومتیں ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابلے محاذ آراء ہیں اور عالمی صہیونیت اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔

خیبر؛ اس بات کے پیش نظر کہ بالیوڈ برصغیر کی ثقافت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور موجودہ حالات میں اسرائیل بالیوڈ کے اندر نفوذ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں؟
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، شاہ کے دور میں ہمارے ایران میں کجھور کی پیداوار ہوتی تھی عالمی مارکیٹ میں ایران کا کجھور دوسرے نمبر پر تھا۔ شاہ، اسرائیل کے سابق سفیر برائے ایران ’مئیر عزری‘ سے کہتا ہے کہ جاؤ عالمی مارکیٹ میں کجھور کا کام کرنے والوں سے کہو کہ ہم کجھور کی برآمد میں پہلا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں یعنی عراق سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں کجھور کی پیداوار اور برآمدات میں۔ مئیر عزری جاتا ہے اور دنیا میں جو یہودی کجھور کا کام کرتے ہیں ان سے بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں اس کے بعد ایران کا کجھور پہلے نمبر پر ہو۔ عزری کہتا ہے کہ ہم نے یہودی تاجروں کے ذریعے ایران کو دنیا میں پہلا کجھور برآمد کرنے والا ملک بنا دیا۔ یہ ایک مثال۔ اس وقت دنیا میں اگر کوئی فلم بنانا چاہے تو فلم بنانا اہم نہیں ہے جو چیز اہم ہے وہ فلم کا پھیلاؤ اور دنیا میں اس کی مقبولیت ہے۔ یعنی اس وقت کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو سینما فلم بناتی ہیں اور کچھ کمپنیاں ای
سی ہیں جو فلموں کو دنیا میں مقبولیت دیتی ہیں۔ اگر آپ بہترین فلم بھی بنا لیں اور وہ دنیا میں مقبولیت نہ حاصل کر پائے اور مثلا وہ صرف ایران میں رہ جائے، بالکل اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ممکن ہے ایک فلم، اسکار(Oscar) میں انعام پانے کی صلاحیت رکھتی ہو لیکن چونکہ دنیا میں خوب اس کی تشہیر نہیں ہو پائی مقبولیت حاصل نہیں کر پائی گویا اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں فلم بنانے والے اور فلم تشہیر کرنے والے اہم ترین افراد یہودی ہیں۔ مثلا ایرانی فلمیں ’’نادر کی سیمین سے جدائی‘‘ (A Separation) یا ’’آسمانی بچے‘‘ (Children of Heaven) جنہوں نے ’ Oscar‘ کا انعام حاصل کیا یہ اس وجہ اس مقام تک پہنچیں چونکہ ان کی بہت اچھے سے تشہیر ہوئی تھی پوری دنیا میں یہ فلمیں دیکھی گئی تھیں لیکن اگر اسکار میں اسے پیش بھی کیا جائے اور کسی نے اسے دیکھا نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں ہے، در اصل وہ اجازت دیں گے تو کوئی فلم عالمی سطح پر شہرت پائی گی مثلا مجیدی صاحب کی بنائی ہوئی فلم ’’محمد رسول اللہ (ص)‘‘، مجیدی صاحب کا کہنا تھا کہ بعض ممالک نے اصلا اس فلم کو ہمیں پلے کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ہم اس فلم کو ان کے ملک میں ایک بار دکھلا سکیں۔ فلم تشہیر کرنے والی کمپنیاں ہمارے ساتھ دشمنانہ رویہ اپناتی تھی اور جس طریقے سے ہم چاہتے تھے کہ دنیا میں اسے منتشر کریں نہیں ہو پائی۔ لیکن اگر صحیح ڈھنگ سے دنیا میں منتشر ہو پاتی تو ممکن تھا Oscar میں بھی انعام حاصل کر لیتی۔ بالیوڈ ان تمام امکانات و ذرائع اور فلم سازی کی اتنی عظیم ظرفیت کا حامل ہونے کے باوجود اپنی فلموں کی دنیا میں تشہیر نہیں کر پاتی۔ بالیوڈ کی فلمیں بھی اگر ٹھیک ڈھنگ سے دنیا میں مقبولیت حاصل نہ کر پائیں تو ان سے فائدہ اٹھانے والے صرف بر صغیر کے عوام ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی دنیا میں انہیں منتشر کرنے والا ہو تو ممکن ہے امریکا میں بھی دیکھی جائیں کون اس ذمہ داری کو اٹھا سکتا ہے یہودی اور صہیونی۔ بالیوڈ کے سربراہان کو اس کام کے لیے کس کے آگے ہاتھ پھیلانا ہو گا اسرائیل اور نیتن یاہو کے آگے۔ یہی وجہ ہے امیتابھ پچن نیتن یاہو کے ساتھ سیلفی بناتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ نیتن یاہو ایک سفارش کردیں تاکہ بالیوڈ کی فلمیں صہیونیوں کے عالمی چینلز کے ذریعے شہرت حاصل کر لیں۔ اور اس کے علاوہ صہیونی خود بھی اس فلم انڈسٹری میں اپنی تاثیر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بالی ووڈ کی فلمیں گندی فلمیں نہیں ہیں بلکہ فیملی فلمیں ہیں اگر چہ دور حاضر میں وہ بھی اسی سمت چلی جا رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کے اندر گھریلو عشق و محبت پائی جاتی ہے۔ صہیونی اس رابطے کے ذریعے درحقیقت بالیوڈ کی فلمسازی کیفیت پر بھی اثرانداز ہونا چاہتے ہیں کہ بالیووڈ جو ایک مستقل اور آزاد فلم انڈسٹری ہے کو اس طریقے سے انحراف کا شکار بنائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button