مضامین

امریکی اتحادی مسلمان حکومتیں پریشان ہیں

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: عرفان علی

روزانہ کی بنیاد پر بدلتے ہوئے بین الاقوامی سیاسی منظر نامے پر ایک طائرانہ نگاہ بھی دوڑائیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ امریکہ کی ٹرمپ حکومت نے چین، روس، ایران و بعض لاطینی امریکی ممالک سے کہ جو تاریخی طور پر امریکی بلاک کا حصہ نہیں رہے، سے تعلقات کو اور زیادہ خراب کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے، لیکن اس مرتبہ بعض ایسے ممالک بھی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں، جو طول تاریخ میں امریکہ کے روایتی اتحادی و دوست رہے ہیں۔ بعض اہم مسلمان و عرب ممالک بھی ان متاثرین میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔ ترکی، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مثالیں موجود ہیں۔ عالمی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور تحولات کی یہ کیفیت نئی صف بندیوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کے اتحادی بعض مسلمان ممالک کی صورتحال کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ نتیجہ گیری میں آسانی رہے۔

پاکستان اور ترکی کے لئے امریکہ نے جو رویہ اختیار کیا ہے، کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ سرکار نے ان دو اہم مسلمان ممالک کو دھتکار دیا ہے۔ خلیج فارس کے کنارے موجود جی سی سی ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی مثال سامنے رکھیئے کہ قطر تاحال امریکہ کا اتحادی ہے، لیکن دیگر دو جی سی سی ممالک امریکی اتحاد کے اہم اراکین ہونے کے باوجود قطر کو دھتکار چکے ہیں۔ امریکہ نے رجب طیب اردگان کی ترک حکومت پر تجارتی جنگ مسلط کر رکھی ہے، جس سے وہاں پہلے سے موجود اقتصادی بحران انتہائی شدت اختیار کرچکا ہے۔ ترکی امریکہ تنازعہ کسی پادری کی نظر بندی یا رہائی سے مشروط ہرگز نہیں، گو کہ تاثر یہی دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی ٹرمپ حکومت کی حمایت کے باوجود سعودی عرب امریکی خواص و عوام کی نظر میں ایک منفور بادشاہت ہے۔ کینیڈا کے خلاف اسکی حالیہ کارروائی اور حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کی گرفتاریوں پر امریکی عوام و خواص اپنی ناراضگی ظاہر کرچکے ہیں۔ حیرت انگیز نکات میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ اپنے اتحادی و دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے یہ بھی نہیں منوا رہا کہ وہ قطر سے مخاصمت ختم کرکے دوبارہ اسے اپنا سگا بھائی سمجھنا شروع کر دیں۔

دلچسپ لیکن حیرت انگیز نکات کیا ہیں؟ کہنے کوت رکی سے امریکہ نے تعلقات ختم کر لئے ہیں، لیکن امریکی محکمہ دفاع المعروف پینٹاگون کے ترکی سے تعلقات ویسے ہی برقرار ہیں، جیسے پہلے تھے۔ انقرہ میں امریکی سفارتخانے کی تعمیر طے شدہ منصوبے کے تحت جاری ہے۔ فوجی اڈے بھی زیر استعمال ہیں اور شام کے خلاف فوجی آپریشنز بھی جوں کے توں جاری ہیں۔ ترکی 1952ء سے نیٹو اتحاد کا رکن ہے اور 1960ء سے یورپی یونین کی مکمل رکنیت کا خواہاں ہے، لیکن نیٹو اتحادی ملک ہونے کے باوجود یورپی یونین کی مکمل رکنیت سے محروم رکھا گیا ہے۔ تو کیا پاکستانیوں کی اصطلاح میں نہیں کہا جاسکتا کہ ترکی پرانی تنخواہ پر ہی اپنے اس مغربی اتحادی بلاک جس کا قائد امریکہ ہے، کے لئے خدمات پیش کرتا رہے گا۔

پاکستان کی مثال لے لیں۔ کہنے کو امریکہ سے تعلقات خراب ہیں، لیکن الزامات و طعنوں کی لفظی جنگ کے دوران بھی امریکی افواج و محکمہ دفاع کا پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر رابطہ برقرار رہا۔ قطر کی مثال لے لیں کہ امریکہ کے فوجی اڈے جوں کے توں موجود ہیں۔ قطر ترکی کے مسائل حل کرنے کے لئے 15 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کرچکا ہے اور پہلے مرحلے میں 3 بلین ڈالر سرمایہ کاری کی امید کی جا رہی ہے۔ امیر قطر ترکی کا دورہ کرچکے ہیں۔ امیر قطر کی کوئی حیثیت یا اوقات ہوتی تو وہ واشنگٹن جاکر امریکی حکومت کو متنبہ کرتے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو سمجھائے کہ قطر کے خلاف اقدامات سے گریز کریں۔ امیر قطر صدر ٹرمپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے کہ ترکی ہمارا دوست اور اتحادی ہے، اس کے خلاف اقدامات سے باز رہا جائے، ورنہ امریکی افواج قطر سے انخلاء کرے۔

حیرت تو آپکو اس نکتے پر بھی ہونی چاہئے کہ متحدہ عرب امارات کے جبل علی فری زون کے مطابق پچھلے سال انکا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار چین تھا، سعودی عرب دوسرے نمبر پر، امریکہ تیسرے نمبر پر، ویتنام چوتھے نمبر پر اور بھارت پانچویں نمبر پر تجارتی شراکت دار رہے۔ مجموعی طور پر بھارت متحدہ عرب امارات کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سعودی عرب اوپیک میں روس کے ساتھ اتحادی بن چکا ہے اور وہاں امریکہ کے اصرار پر ایران کے خلاف جو فیصلہ کیا تھا، بعد میں کمپرومائز کرکے فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوا، جبکہ امریکی اس بے وفائی پر بھی ناراض ہیں۔ روس اور چین سے پاکستان اور دیگر اتحادی ممالک کی قربتوں پر بھی امریکہ کی نظر ہے۔ آزاد مبصرین ماضی کے تلخ حقائق کی بنیاد پر یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یہ اتحادی امریکی حکومت کو یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ ہمیں لفٹ نہیں کرواؤ گے تو پھر مجبوراً ہمیں دوسری طاقتوں کے پاس جانا ہوگا، جس سے تم اس خطے میں بے اثر اور غیر اہم ہو جاؤ گے۔ یعنی انکی خواہش یہی ہے کہ امریکی حکومت کو ناراض نہ کیا جائے لیکن اس مرتبہ امریکی حکومت خود ہی اپنے اتحادیوں کو دور کر رہی ہے۔

اس سوچ کی وجہ بھی سمجھ لیں۔ ترکی کا خیال ہے کہ بحر اسود (کالے سمندر) اور بحر متوسط میں اگر ترکی کو مائنس کیا گیا تو پھر امریکہ اور نیٹو اتحاد اس خطے کو روس کے ہاتھ گنوا دیں گے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ روس کا اثر
و نفوذ کالے سمندر اور بحر متوسط میں بڑھ جائے گا جبکہ چین میں افریقہ مستحکم حیثیت حاصل کر لے گا۔ ترکی سمجھتا ہے کہ چین، روس اور ایران سمیت ایشیاء تک پہنچنے کے لئے مغربی بلاک کے لئے ترکی ہی نزدیک ترین گذرگاہ ہے۔ ایک اور اہمیت یہ ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک اور بحیرہ خضر کے ممالک سے تیل و گیس یورپ تک براستہ ترکی پہنچتی ہے، یعنی یہ انرجی ٹرانزٹ ملک ہے۔

پاکستان کا حکمران طبقہ جانتا ہے کہ افغانستان کے مسائل کے حل میں اسکے کردار کو مائنس نہیں کیا جاسکتا اور پاکستان وسطی ایشیاء، ایران، افغانستان، چین و بھارت تک پہنچنے کی گذرگاہ بھی ہے۔ چونکہ امریکہ ایران کے خلاف اقدامات میں مصروف ہے تو وہ پاکستان سے بھی چاہتا ہے کہ ایران کے خلاف امریکی سعودی بلاک کا باقاعدہ حصہ بنے اور چین کو پاکستان میں اتنا زیادہ اثر و نفوذ نہ کرنے دے۔ پاکستان کی حکومت کو بارہ بلین ڈالر کا قرضہ درکار ہے، جس سے پچھلے قرضے کی سود سمیت قسط بھی ادا ہو اور درآمدات کے بل کی ادائیگی بھی ممکن بنائی جاسکے اور اس کے لئے اگلے ماہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا امکان بھی ہے اور مذکورہ مجموعی پس منظر کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا 5 ستمبر کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کا ا مکان بھی ہے۔

ترکی کی خواہش ہے کہ اسے اہمیت ملے اور اس کے لئے وہ کوشش کرنا چاہتا ہے کہ کسی ایک محور میں مقید نہ ہو جائے، جیسا کہ نیٹو مغربی اتحاد کی وجہ سے اس پر چھاپ لگ چکی ہے۔ اب وہ برکس، آسیان ٹائپ کی علاقائی و بین الاقوامی گروپنگس سے تعلقات میں اضافے کا خواہشمند بھی ہے۔ امریکہ کے عرب اتحادی حکمران ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا حل ڈھونڈنے میں مصروف ہیں اور اس سوچ میں جعلی ریاست اسرائیل بھی ان کی شراکت دار ہے۔ ان سب نے اس مسئلے کا حل یہ ڈھونڈا ہے کہ روس اور چین سے تعلقات بڑھائیں کیونکہ ایران سے امریکی و یورپی ممالک تو کچھ بھی منوا نہیں سکتے، روس شام میں ایران کا اتحادی ہے اور چین ایران کا بڑا تجارتی شراکت دار، اس لئے وہ اس طرح کی سوچ کے تحت اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔

اختصار کے ساتھ موٹی موٹی چند باتیں پیش کرنے کے بعد باآسانی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکہ ان مسلمان ممالک کو اتحادی اور دوست نہیں بلکہ کنٹریکٹ ملازم سمجھتا ہے اور ملازمت کے معاہدے کے تحت ان سے ایڈہاک بنیاد پر معاملات طے کرکے اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے۔ وہ یہاں کے معدنی ذخائر اور خاص طور انرجی ذخائر پر کنٹرول رکھنا چاہتا ہے، جس کے لئے اسکو یہاں فوجی موجودگی کی ضرورت ہے اور وہ حالات کو منیج کرنے کے فن کا ماہر ثابت ہوا ہے کہ باوجود کشیدگی کے مسلمان و عرب اتحادی ممالک میں اسکے زیر استعال فوجی اڈے اور اسکے فوجی آپریشنز نہیں رکے ہیں۔ البتہ اس صورتحال کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ امریکی اتحادی ہونے کے باجود آپ مقروض رہتے ہیں، آپکی کرنسی کی قدر و قیمت امریکی ڈالر کے مقابلے میں مستحکم نہیں رہتی، آپکا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔

امریکی بلاک سے وفاداری اور امریکہ کے سامراجی مفاد ات کے لئے ایران جیسے ممالک سے دشمنی کرنا، برادر کشی کرنے کے باوجود بھی امریکہ کی نظر میں آپکی اہمیت غلاموں سے بدتر درجے کی رہتی ہے۔ تاریخ کا ایک عبرتناک سبق یہ ہے تو دوسرا سبق بھی ہے۔ یعنی کم از کم پچھلے انتالیس برسوں نے دنیا کو یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ آپشن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایران کی طرح انقلابی فکر رکھ کر اپنی آزادی و استقلال کو برقرار رکھتے ہوئے، امریکہ و اسرائیل مردہ باد کہتے ہوئے بھی آپ سر اٹھا کر دنیا میں زندگی گذار سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اقتصادی نقصان وہی ہوتا ہے، جو امریکی اتحادی ممالک کے ساتھ ہوا ہے! اور امریکہ کی ڈکٹیشن پر چلنے والے بہرحال ایران جیسے ملک سے معاملات حل کرنے کے لئے وہ چینل استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جو ایران جیسے ملک کی طرف سے منظور شدہ ہو۔ آخرکار لگ پتہ جاتا ہے کہ کم بخت ایران کے سوا کوئی باعزت آپشن تھا ہی نہیں!

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button