شام میں ادلب کا محاذ اور دہشگردوں کا خاتمہ
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
شام میں پچھلے سات سال میں جنگ جاری ہے، بین الاقوامی استعمار نے اپنے مفادات کے لئے عرب بہار کے نام سے مسلم ممالک میں تباہی کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس کا اختتام ہونے جا رہا ہے۔ شام کی افواج اور وہاں کی عوام نے پوری دنیا سے مسلط ہونے والے انسانیت دشمن گروہوں کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا ہے۔ ہر جنگ کی طرح یہ جنگ بھی تکلیف دہ تھی، جس میں لاکھوں لوگ جان سے گئے، لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ گزیں ہونا پڑا اور شام کا پورا تعمیراتی ڈھانچہ بارود کی نذر ہوگیا۔ امریکہ اور اسرائیل نے براہ راست اور اپنے مقامی اتحادیوں کے ذریعے شامی عوام پر بے شمار مظالم کئے۔ ممنوعہ گیسوں سے لیکر بدترین خودکش حملوں تک ہر ذریعے سے شامی افواج اور عوام پر حملہ کیا گیا، مگر شامی افواج اور عوام چٹان کی طرح مضبوط رہے۔ شروع کے کچھ عرصے میں یہ لگ رہا تھا کہ ابھی بشار الاسد ہتھیار ڈال دے گا اور باغی ملک پر قابض ہو جائیں گے، مگر بشار اور شام کی افواج نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے تمام سازشیں ناکام کر دیں۔
بین الاقوامی قوتیں یہ چاہتی تھیں کہ اسرائیل کے مظالم کے خلاف سب سے موثر عملی آواز حزب اللہ کو اس کے اہم حمایتی شام سے محروم کرکے اس کی سپلائی لائن کاٹ دیں اور پھر انہی جنونی قاتلوں کے ذریعے حزب اللہ پر حملہ کروا کر اس کے مراکز کو ختم کرا دیں، مگر ان کے تمام پروگرام خس و خاشاک کی طرح اڑ رہے ہیں، ایسے میں قرآن کی وہ آیت ذہن میں آتی ہے:وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ”اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور الله نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی اور الله بہترین خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سے ہے۔” اس جنگ میں دمشق، حلب، غوطہ اور دیگر سینکڑوں دیہات اور شہروں کو ان انسانیت دشمن گروہوں سے پاک کرنے کے بعد اب شامی افواج ادلب کا رخ کر رہی ہیں۔ ادلب ترکی کے بارڈر کے ساتھ شام کا انتہائی اہم علاقہ ہے۔ سھل الغرب اور جسر الشعور جیسے دفاعی اہمیت کے حامل علاقے اور ایم فور اور ایم فائیو جیسے اہم ہائے وے ادلب میں واقع ہیں۔ اس وقت ادلب کی آبادی تقریباً تیس لاکھ ہے، اس میں پندرہ لاکھ یہاں کے مقامی باشندے ہیں اور باقی پندرہ لاکھ دیگر علاقوں سے آئے جنگجو اور ان کے خاندان ہیں۔ اقوام متحدہ کے شام کے نمائندے کے مطابق اس وقت تقریباً دس ہزار جنگجو ادلب میں موجود ہیں۔ تحریر الشام، جبھۃ النصرہ اور فری سیرین آرمی یہاں کے اہم جنگجو گروہ ہیں۔ سعودی عرب، قطر اور ترکی مقامی سطح پر ان گروپس کے فنانسرز اور حمایتی ہیں۔ تحریر الشام اور جبھۃ النصرہ کو داعش کے مقامی گروہ کہا جا سکتا ہے۔
ادلب کئی لحاظ سے دیگر شامی علاقوں سے مختلف ہے، ایک تو یہاں ترکی کا بارڈر موجود ہے اور ترکی کی یہ خواہش ہے کہ جبھۃ النصرہ اور تحریر الشام کے خلاف فری سیرین آرمی کو سپورٹ کی جائے اور شامی افواج یہاں پر نہ آئیں۔ عملی طور پر صورتحال کافی گھمبیر ہے، فری سیرین آرمی اور دیگر گروہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ غوطہ اور حلب میں فوجی کارروائی کے ساتھ ساتھ مذاکرات بھی ہوتے رہے، جن کے نتیجے میں جبھۃ النصرہ، تحریر الشام اور فری سیرین آرمی کے بہت سے جنگجو غوطہ، حلب اور دیگر جگہوں سے اپنے خاندانوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں ان شہروں سے نکلے اور ادلب پہنچ گئے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر تمام دہشتگرد گروہ پھنس چکے ہیں۔ ترکی نے ادلب سے ملنے والی اپنی سرحد بند کر دی ہے، جس سے کوئی بھی وہاں داخل نہیں ہوسکتا۔ شہری اور دہشتگرد دونوں محصور ہوچکے ہیں، اب ان کے پاس صرف دو آپشن ہیں یا تو خود کو حکومت کے حوالے کر دیں کہ وہ جو چاہے ان کے متعلق فیصلہ کرے یا لڑیں۔؟ اس وقت لڑائی کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں، اگرچہ دس ہزار جنگجو موجود ہیں، کچھ عرصہ مزاحمت کرسکتے ہیں، مگر شامی اور روسی فضائیہ کی فضائی برتری ان کی شکست میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔
ادلب میں روس کا کردار انتہائی اہم ہے، روسی بحریہ کی بحر روم میں ادلب کے پاس ہی بڑے پیمانے پر بحری مشقیں جاری ہیں، جو اس بات کی علامت ہیں کہ روسی فورسز ادلب پر حملے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ روس کے ترکی کے ساتھ تعلقات اگرچہ اتار چڑھاو کا شکار ہیں، مگر روس یہ نہیں چاہتا کہ ادلب میں ترک مفادات کو بالکل نظر انداز کر دے۔ اس لئے اس کارروائی کے حوالے سے ترکی کو بھی اعتماد میں لینا چاہتا ہے۔ اسی لئے تہران میں روس، شام اور ترکی کی مشترکہ میٹنگ رکھی گئی، اس میں سرفہرست مسئلہ ادلب میں کارروائی ہے۔ ترکی اس کارروائی کے نتیجے میں پناہ گزینوں کی پہلی منزل ہوگا اور کردستان تحریک کا علاقے میں کردار کے حوالے سے بھی ترکی کے تحفظات ہیں، اس لئے ان کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ترکی کے پاس بہت ہی محدود آپشنز ہیں، ترکی تو یہ چاہتا تھا کہ فری سیرین آرمی کے ذریعے ان دہشگرد گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے، جو شام، ایران اور روس کو قبول نہیں ہے، یہ بات بھی طے ہے کہ شامی افواج ہر صورت میں اپنے علاقوں پر دوبارہ شامی پرچم کو لہراتا دیکھنا چاہتی ہیں، اس لئے وہ زیادہ انتظار نہیں کریں گی بلکہ جلد کارروائی شروع ہو جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ ترکی کو یہ گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ یہاں سے اس کے خلاف کردستان پارٹی کو کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرنے دی جائے گی۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا روس کے
تعاون سے جیسے پہلے مذاکرات کے ذریعے شہروں کو خالی کرایا گیا، اب بھی ایسا ہوسکے گا کہ معاہدے کے ذریعے ادلب آزاد ہو جائے۔؟ ایسا کوئی اجتماعی معاہدہ ہونا مشکل نظر آرہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر برسرپیکار تمام گروہ مختلف علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے کنٹرول میں ہیں اور ان قوتوں کے مفادات باہمی طور پر ٹکراو کا شکار ہیں، جس کی تازہ مثال سعودی عرب کا قطر کو جزیرے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس لئے ایسا کوئی معاہدہ مشکل ہے، البتہ یہ ممکن ہے کہ ترکی کے ساتھ جاری مذاکرات میں وہ گروہ معاہدہ کر لیں یا کم مزاحمت کریں، جن پر ترکی کا اثر ہے۔ امید یہ ہے کہ بہت جلد ادلب بھی آزاد ہو جائے گا۔ ادلب کی آزادی کے بعد شامی افواج کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک کے ان تقریباً پچیس فیصد کے قریب علاقوں کی آزادی کے لئے کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا، جو اس وقت کردوں کے قبضے میں ہیں اور ان کی پشت پناہی امریکی اور اسرائیلی کر رہے ہیں، بلکہ امریکہ کے فوجی ان علاقوں میں موجود ہیں۔ اس میں فقط فوجی محاذ نہیں ہوگا بلکہ سفارتی محاذ پر بھی لڑنا پڑے گا، کیونکہ امریکی افواج اقوام متحدہ کی منظوری کے ساتھ نہیں آئیں، بلکہ خود ساختہ مفادات کے تحفظ میں بین الاقوامی قوانین کو روندتی ہوئی ایک آزاد اور خود مختار ملک کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے آئی ہیں اور ایک ایسے جتھے کی حمایت کر رہی ہیں، جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ادلب کی فتح کے بعد ایک اہم چیلنج شام کی تعمیر نو ہے۔ شام کا انفراسٹکچر بری طرح برباد کر دیا گیا، پلوں اور سڑکوں کو توڑ دیا گیا، رہائشی علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں، ہسپتال اور ریل کا نظام بھی سکڑ گیا اور تعلیمی نظام بھی تباہ ہے۔ اس کی تعمیر مدبرانہ حکمت عملی کی متقاضی ہے، جس میں تعمیر نو کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ اس کا تحفظ بھی اہم ہوگا۔ اس کے لئے بین الاقوامی برادری کی مدد لینا ہوگی۔ روس اور ایران تو بھرپور کردار ادا کر ہی رہے ہیں، چائنہ کو بھی اس میں لانا ہوگا۔ چائنیز کے آنے سے طاقت کا تواز بھی تھوڑا اور بہتر ہو جائے گا، خطے میں امریکی بالادستی مزید کم ہوگی۔ بڑی تعداد میں شامی پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ضروری ہے کہ ان کی واپسی کا انتظام کیا جائے، اس سے بین الاقوامی اداروں کو مثبت پیغام جائے گا اور لوگ اپنے گھروں کو پہنچیں گے۔ امید ہے شامی عوام جلد امن کے دن دیکھیں گے۔