امام پاک اور یزید پلید
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: ثاقب اکبر
”امام پاک اور یزید پلید“ ایک کتاب کا ٹائٹل ہے، جو معروف اہل سنت عالم مولانا محمد شفیع اوکاڑوی مرحوم کی تالیف ہے۔ اس کتاب کو بہت شہرت حاصل ہے۔ ہمارے پیش نظر اس کا ضیاءالقرآن پبلی کیشنز لاہور کا ستمبر2017ء کا نسخہ ہے۔ مولانا محمد شفیع اوکاڑوی ایک معروف خطیب تھے۔ مولانا کے معروف فرزند مولانا کوکب نورانی اس کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہی کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مئی 1985ء کو نامور اہل سنت عالم سید احمد سعید کاظمی جنھیں غزالی زمان کہا جاتا ہے، نے اس کی تیسری اشاعت کے موقع پر لکھا: "فاضل جلیل حضرت الحاج الحافظ مولانا محمد شفیع صاحب اوکاڑوی کی شہرہ آفاق تصنیف ”امام پاک اور یزید پلید“ کی تیسری اشاعت پر میں مولانا کوکب نورانی کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اس دور پرفتن میں جبکہ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عظیم کارناموں اور ان کے فضائل و محاسن کے بالمقابل یزیدیت کا پرچار کیا جا رہا ہے، اس تالیف منیف کی اشاعت نہایت ضروری اور بے حد مفید ہے۔”
کتاب کے آغاز پر مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے امام حسینؑ کو ان القاب سے یاد کیا ہے: "تاجدار کربلا، سیدالشہداء، مظہر شجاعت و سخاوت نبوت، پیکر عشق و محبت و صبر و استقامت، سید شباب اہل جنت، مقصد اہل عقیدت و محبت، ریحان مصطفیٰ، دلبند مرتضیٰ، نور دیدہ مخدومہ کائنات سیدہ فاطمہ زہرا، راحتِ جانِ حسن مجتبیٰ، امام عالی مقام، فخر کونین سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ عنا۔” جیسا کہ اس کتاب کے ٹائٹل سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں امام حسین علیہ السلام کے مقام اور حیثیت کو بیان کرنے کے علاوہ یزید کی ماہیت کو آشکار کیا گیا ہے۔ ٹائٹل سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا کے نزدیک امام حسین علیہ السلام پاک ہیں اور یزید پلید ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ قرآن کی آیة تطہیر میں امام حسینؑ اور دیگر پنجتن پاک ؑکے دیگر افراد کے لئے۔۔”یطھر کم تطھیرا“ کے الفاظ آئے ہیں اور ان ہستیوں کو رجس سے دور رکھنے کے الٰہی ارادے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اللہ ہی کا ارادہ ہے کہ جس نے حسین پاکؑ کو یزید پلید کی بیعت سے محفوظ رکھا کیونکہ یزید اس دور کا سراپا رجس تھا۔
کتاب میں یزید کی ماہیت کو آشکار کرتے ہوئے مختلف اہل سنت متقدمین، محدثین اور مفسرین کے علاوہ متاخرین کے اقوال سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ بعض خوارج اور نواصب امام حسینؑ کے قیام کو خروج سے تعبیر کرتے ہیں اور انہیں نعوذباللہ باغی قرار دیتے ہیں۔ ان کے جواب میں حضرت ملا علی قاری کی یہ عبارت نقل کی گئی ہے: "بعض جاہلوں نے افواہ اڑا رکھی ہے کہ حضرت امام حسینؓ باغی تھے تو یہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک باطل ہے، شاید یہ خارجیوں کے ہذیانات (بکواس) ہیں، جو راہ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں۔” مولانا محمد شفیع اس موضوع کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں: "الحمدللہ دلائل حقہ شرعیہ سے ثابت ہوگیا کہ حضرت امام حسینؓ کے نزدیک یزید بوجہ فاسق و فاجر ہونے کے ہرگز مسلمانوں کی امامت و سیادت کے لائق نہ تھا۔ (ص ۷۵)
مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے اپنی زیر نظر کتاب میں متعدد احادیث رسول سے یزید کی حقیقت کو واضح کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ نے اسے جہنمی قرار دیا ہے۔ چند ایک احادیث کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا: "وہ ناخلف ساٹھ ہجری کے بعد ہوں گے، جو نمازیں ضائع کریں گے اور شہوات کی پیروی کریں گے تو وہ عنقریب غیّ(جہنم کی ایک سخت وادی) میں ڈالے جائیں گے،(بحوالہ البدایہ والنہایہ،ج۸)۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی امارت و حکومت سے اللہ کی پناہ مانگو۔” یاد رہے کہ یزید ساٹھ ہجری میں ہی برسراقتدار آیا تھا۔
حضرت عبدالحق شاہ محدث دہلوی کی ایک فارسی عبارت کا ترجمہ مولانا نے یوں کیا ہے: "اور حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبر شریف پر بندر کھیل کود رہے ہیں، آپ نے اس خواب کی تعبیر بنی امیہ ہی کو قرار دیا۔ اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہیں کیا کہا جائے۔”(ص۰۷) مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے امام حسینؑ کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے کئی ایک احادیث کا حوالہ دیا ہے اور پھر امام حسینؑ کے اپنے خطبات بھی نقل کئے ہیں، جن سے ان کے قیام کا مقصد آشکار ہوتا ہے۔ مولانا نے نبی کریم کے اس فرمان کا حوالہ دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: "افضل جہاد اس کا ہے جو ظالم بادشاہ کے پاس حق بات کہے۔” (بحوالہ ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ و مشکوة)
مولانا نے ایک اور حدیث کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ یزید جیسے حکمرانوں کی مدد کرنے والے کو رسول اللہ نے سخت وعید کی ہے، چنانچہ انہوں نے حضرت کعب بن عجرہؓ سے مروی ایک حدیث نقل کی ہے ہم انہی کا ترجمہ پیش کرتے ہیں: "اے کعب بن عجرہ! میں تجھ کو بیوقوفوں کی حکومت سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ! وہ بیوقوفوں کی حکومت کیا ہے؟ فرمایا عنقریب ایسے امراء ہوں گے کہ بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے اور عمل کریں گے تو ظلم کریں گے، پس جو ان کے پاس آکر ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے گا تو وہ مجھ
سے نہیں اور میں اس سے نہیں ہوں اور نہ وہ کل (قیامت کے دن) میرے حوض پر آئے گا اور جو ان کے پاس نہیں آئے گا اور نہ ان کی تصدیق کرے گا اور نہ ان کے ظلم پر ان کی اعانت کرے گا، وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ کل قیامت کے دن میرے حوض پر آئے گا۔”(بحوالہ کنزالعمال) مولانا نے یہ حدیث لکھنے کے بعد ایک بہت قابل توجہ نکتہ لکھا ہے: "امام حسینؓ کی شان میں حضور کا فرمان ہے "حسین منی وانا من حسین” اور حدیث میں ہے کہ جس نے ان حکام کی تصدیق و اعانت کی فلیس منی وہ مجھ سے نہیں تو امام عالی مقام کس طرح ان کا ساتھ دیتے۔۔۔(ص۷۳۱) مولانا اوکاڑوی نے ایک اور حدیث نقل کی ہے، جو حضرت خالدؓ سے مروی ہے: "جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ ان پر عذاب عام بھیج دے۔” (بحوالہ ابوداؤد شریف)۔
اس سارے پس منظر میں انہوں نے امام حسینؑ کا ایک خطبہ نقل کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیا حالات پیدا ہوگئے تھے کہ امام حسینؑ کو بیعت سے انکار کرنا پڑا اور آپ یزید کے خلاف ڈٹ گئے۔ چنانچہ انہوں نے خطبے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی نقل کیا ہے، ہم ترجمے پر اکتفا کرتے ہیں: "اے لوگو! بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے، جس نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کی ہو، اللہ کے بندوں میں گناہ اور ظلم کے ساتھ عمل کرتا ہو، پھر وہ شخص اپنی قوت و طاقت کی حد تک اپنے قول اور فعل سے اس کو نہ بدلے تو اللہ تعالیٰ کو حق حاصل ہے کہ اس کو اس (بادشاہ کے) داخل ہونے کی جگہ میں داخل کر دے۔ خبردار ہو جاؤ! بے شک ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت کو لازم پکڑ لیا ہے اور رحمن کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے اور فتنہ و فساد برپا کر دیا ہے اور حدود شرعی کو معطل کر دیا ہے اور محاصل کو اپنے ہی لئے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کی حرام کردہ باتوں کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے دیا ہے۔ لہٰذا میں بہ نسبت کسی اور شخص کے (ان کے خلاف جہاد کرنے کا) زیادہ حق دار ہوں اور بے شک میرے پاس تمھارے خطوط اور قاصد آئے کہ تم میری بیعت کرو گے اور ہر طرح میرا ساتھ دو گے اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچنے دو گے اور مجھے چھوڑو گے نہیں، پس اگر تم میری بیعت پر قائم رہو تو ہدایت پاؤ گے۔ میں حسین بن علی اور ابن فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔”(بحوالہ ابن اثیر)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان اگر امام حسینؑ کو امام حق مانتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں تو وہ اپنے پاس اس کے لئے قوی دلائل رکھتے ہیں۔ اسی طرح امام حسینؑ کے قیام کو قرآن و سنت کی پیروی میں قرار دیتے ہیں تو ان کے سامنے قرآن و سنت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ دوسری طرف یزید سے نفرت کی دلیل خود یزید کے وجود میں موجود ہے اور یزید نے اسلام کو بنیاد سے اکھاڑنے کے لئے جو ناپاک سازشیں کیں، مسلمانوں کے سامنے اس کے لئے تاریخی ریکارڈ موجود ہے۔ ساری امت کا اس پر اجماع ہے کہ امام حسینؑ پاک سلسلے کے پاک راہنما ہیں اور یزید کا وجود نجاست و رجاست کی یادگار ہے۔ اس امر کو آشکار کرنے کے لئے ہر دور میں مسلمان علماء نے کتب لکھی ہیں۔ اس میں کسی خاص مکتب فکر کے علماء شامل نہیں بلکہ بدبخت نواصب کے علاوہ تمام مکاتب فکر کے علماء شامل ہیں اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے کہ ان کے سامنے قرآن حکیم کی وہ آیات موجود ہیں، جن کی شان نزول امام حسینؑ کی محبت کو واجب قرار دیتی ہے اور امام حسینؑ کی عظمت و طہارت کو بیان کرتی ہے۔
دوسری طرف پیغمبر اکرم کی ان سے محبت پر لاتعداد احادیث ان کے مقام کی شاہد ہیں۔ نبی پاک نے ان سے خود محبت کا جس طرح سے اظہار کیا ہے، صدیاں گزر گئیں لیکن اس امت کے بچے بچے کو اس کے کئی واقعات یاد ہیں۔ پھر ایسی احادیث جن میں امام حسینؑ کے عظیم مقام اور مرتبے کو بیان کیا گیا ہے، نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ ان علماء میں سے ایک مولانا محمد شفیع اوکاڑوی بھی ہیں، جن کی کتاب میں سے کچھ عبارتیں ہم نے نذر قارئین کی ہیں۔