خون ریزی اور مذہبی تعلیمات
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر :سید اسد عباس
جیسا کہ گذشتہ تحریر میں ہم نے دیکھا کہ روحانی منازل کے حصول کے لئے جسمانی ایذا رسانی یا نفسانی کنٹرول کے لئے مختلف ریاضتیں اور ان کے مختلف طریقہ ہائے کار رائج تھے اور ان روشوں کو مذہبی تعلیمات کی بھی پشت پناہی حاصل رہی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جسمانی ایذا رسانی کا آخری درجہ خون ریزی تھا۔ فقط ہندو دھرم میں مرن بھرت یعنی تا موت بھوکے رہنے کا رواج ہے۔ اب کچھ جدید معاشروں میں اجتماعی خودکشی کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ افریقہ کے قبائلی کلچر میں انسانی جسم کو کاٹ کر اس پر مختلف طرح کے نقش و نگار بنانا، چہرے، کمر، بازؤں کو زخمی کرنا وغیرہ جیسے امور آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
بعض افریقی قبائل نوجوان شکاریوں کے جسموں کو بلیڈ سے اس انداز سے کاٹتے ہیں کہ ان کا جسم مگرمچھ کی مانند دکھائی دیتا ہے، اسی طرح کان چھیدنا، ہونٹوں کو چھیدنا جیسے امور بھی افریقی تہذیب میں عام ہیں۔لبرل معاشروں میں ٹیٹو سازی اب ایک فیشن کا روپ دھار چکی ہے، جس میں مختلف طرح کی تصاویر انسانی جلد کی نچلی تہ پر بنائی جاتی ہیں، جو مذہبی وابستگی، محبت، بہادری اور طرح طرح کے امور کی غمازی کرتی ہیں۔ ٹیٹو سازی کا عمل بھی ایک طرح کی جسمانی ایذا رسانی ہے،
بعض اوقات یہ ٹیٹو انتہائی حساس مقامات پر بھی بنوائے جاتے ہیں، جن کو بنانے کے لئے شدید تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح جسم کو کاٹنے، چھیدنے اور اس میں کنڈے ڈالنے کا عمل بھی اب یورپی معاشروں میں عام ہوچکا ہے، جسے piercing کہا جاتا ہے، یہ عمل بھی ایک طرح کی خود اذیتی ہے، جس میں زبان، ناک، کان، اعضائے مخصوصہ، پیٹ،نپل پر زیورات ٹانکنے کے لئے اس میں سوراخ کیا جاتا ہے۔ ہندو معاشروں میں یہ ایک مذہبی رسم ہے جبکہ جدید معاشروں میں یہ عمل معاشرتی پابندیوں سے بغاوت کا استعارہ بن رہا ہے۔
برازیل کی ایک خاتون کا نام فقط اس لئے گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا کہ اس کے جسم پر 426 ایسے چھید کئے گئے تھے، جن میں مختلف طرح کی چیزیں آویزاں تھیں۔ملائشیاکا ایک قبیلہ پینانگ نو شہنشاہ خداؤں کے میلے میں آگ پر ننگے پاؤں چلتا ہے، جس کا مقصد نجاسات سے پاک ہونا، شیطانی اثرات سے بچنا اور گناہوں کو دھونا ہے۔ جنوبی ہندوستان کے آدیواسی ہر سال آگ پر چلتے ہیں، جس کا مقصد اپنے بھگوان شیو کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ امریکہ کے مقامی پاشندے جنھیں ریڈ انڈین کہا جاتا ہے،
زمین کی روح کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے سورج کا رقص انجام دیا کرتے تھے، جس میں کیل کو سینے کی جلد میں داخل کرکے اسے کسی لکڑی سے باندھ دیا جاتا تھا، جس سے یقیناً خون جاری ہوتا تھا۔ پیسیفک جزائر میں اونچی جگہ سے کودنے کی رسم کو بھی مذہبی درجہ حاصل ہے، جس میں ایڑیوں سے رسی باندھ کر چھلانگ لگائی جاتی ہے، یہ رسم جدید دنیا میں ایک ایڈونچر کا روپ دھار چکی ہے۔ ان قبائلی، مذہبی، علاقائی رسومات کا مطالعہ کرنے سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان سب کا بنیادی مقصد جسمانیات کی نفی اور روحانیت سے قریب تر ہونا ہے۔ نفس کو اذیت دینے کے مختلف مراحل ہیں،
جس میں بھوک پیاس سے لے کر جسم کو کاٹنا، چھیدنا اور آگ پر چلنا شامل ہیں۔ یہ تمام امور کسی ہستی کے غم کو منانے، شیطان سے بچاؤ، گناہوں، ناپاکی کے خاتمہ کے لئے اپنے آپ کو اذیت میں مبتلا کرکے انجام دیئے جاتے ہیں۔ختم المرسلین نبی رحمت جو دین لائے، اس میں اظہار کے کسی ایسے طریقے کو روحانیت یا اظہار غم کا زینہ قرار نہیں دیا گیا ہے۔ روزہ اور حج کی سختیاں ہی وہ سختیاں ہیں، جو مسلمانوں کو متقی بنانے کے لئے تجویز کی گئیں ہیں۔ ہاں جہاد کا حکم دیا گیا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں اپنے نفسوں کو تلواروں کے سپرد کرو اور اسے بڑی عبادت قرار دیا گیا۔
جہاد کے نتیجے میں قتل ہونے والے کو شہید قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اسے مردہ مت سمجھو، مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپوں اور ان سے اٹھنے والی خاک کی قسمیں کھائیں، تاہم اس کے علاوہ کسی بھی عمل خود اذیتی کو قبول نہیں کیا گیا ہے۔ ایک عادلانہ معاشرے کے قیام اور ظلم کے خاتمے کے لئے جہاد کا حکم نہایت منطقی بات ہے، جس سے کوئی بھی انسان خواہ کسی بھی نسل، مذہب، معاشرے کا باسی ہو انکار نہیں کر سکتا ہے۔دلیل دی جاسکتی ہے کہ اسلام میں بچوں کے آلہ تناسل پر بڑھی جلد کو کاٹنے کا حکم موجود ہے،
کیا یہ خود اذیتی یا ظلم نہیں، میرے خیال میں اس جلد کا کاٹنا طبی فوائد کا حامل ہے اور یقیناً اس کا پیدائش کے وقت موجود ہونا بھی حکمت سے خالی نہیں ہوگا۔ اس عمل کو طبی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، جیسے کسی فالتو یا مضر صحت عضو یا اس کے حصے کو کاٹنا انسانی زندگی کے لئے مفید ہے، اسی طرح اس فالتو جلد کا ہٹ جانا فائدہ مند ہے۔ میری رائے میں اب تک ہم نے جسمانی ایذا رسانی،خون ریزی کے موارد کو دیکھا ہے، اگر یہ واقعاً کسی حد تک بھی فائدہ بخش ہوتے تو اسلام ان کا سب سے بڑا داعی ہوتا اور انسانوں کو روحانیت کی منازل طے کرنے کے اس آسان اور مجرب نسخے سے دور نہ رکھتا۔
میری اس تحریر کا مقصد کسی بھی تہذیب کے عمل کو درست یا غلط کہنا نہیں ہے بلکہ ہدف جسمانی ایذا رسانی جو مختلف عناوین سے مختلف تہذیبوں، اقوام، قبائل، نسلوں اور ادیان میں رائج ہیں، ان کا جائزہ لینا ہے اور دیکھنا ہے کہ یہ عمل کس حد تک اپنے مطلوبہ ا
ہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔دین اسلام کی واضح تعلیمات کی روشنی میں اب کوئی بھی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ اللہ کریم یا رسالت مآبؐ نے کسی ایسی رسم یا عمل کی تعلیم دی ہو۔ ان کے اہلبیت علیہم السلام اور اصحاب سے بھی کسی ایسی بات کی تعلیم ملنا دستیاب نہیں ہے،
فقط ایک واقعہ اویس قرنی کے علاوہ جسے ان کے اپنے زمانے میں بھی اسوہ یا طریقہ نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی کسی اور کی جانب سے اس کی پیروی کی گئی۔ صدر اسلام کی ان ہستیوں کی زندگی اور موت فقط اسلام اور اس کی آفاقی تعلیمات کی سربلندی کے لئے تھیں۔ اہل علم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اپنے نانا کے دین میں پیدا کئے جانے والے بگاڑ اور معاشرے کی بے راہ روی کو دیکھ کر ہی قیام کے لئے میدان عمل میں اترے تھے۔ انہوں نے اپنے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں اپنے جد رسول اللہ (ص) کی امت کی اصلاح کے لئے نکل رہا ہوں۔ اس وقت امت رسول (ص) کرپشن،
اقرباء پروری، ظلم و زیادتی، ناانصافی، دین میں رد و بدل جیسے مسائل کا شکار تھی۔اب کوئی شخص انہی کا نام لے کر، ان کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے، ان کے عشق میں، اسلام کے فلسفہ روحانیت میں ردوبدل کرے اور وہ رسوم جو اس مقصد کے لئے دیگر ادیان و مذاہب میں رائج ہیں، تاہم اسلام نے ان کی تائید نہیں کی، کو اپنائے تو امام حسین علیہ السلام، ان کے نانا نبی رحمت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، ان کی والدہ خاتون جنت سیدہ النساء، ان کے والد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام، ان کے بھائی حسن مجتبیٰ سید شباب اہل الجنۃ کیسے اس عمل سے خوش ہوسکتے ہیں۔؟؟؟ امام حسین علیہ السلام کو اپنا غم، دکھ، کنبہ،
اولاد اگر اتنے ہی پیارے ہوتے کہ اس کے لئے ہر غلط و صحیح عمل کو قبول کر لیں تو پھر دین کے لئے یہ سب کچھ قربان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔؟؟؟ امام نے اپنا سب کچھ اس دین الہیٰ پر قربان کیا، تاکہ حقیقی دین آنے والی نسلوں تک پہنچے۔ دین کی وہ تعلیمات جو نبی رحمت لے کر آئے تھے، وہی عام ہوں۔ درج بالا تحریر کے بعد مشکل نہیں ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب میں داخل ہونے والی ایذا رسانیوں کی رسموں، اقدامات کی بنیاد کو معلوم کیا جاسکے اور اپنی روشوں پر غور کیا جائے۔