اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر:شہاب مرزا
اسلام نے وحدانیت آزادی مساوات کا جو تصور دیا ہے وہ اپنے ماننے والوں کو غلامی پر راضی نہیں ہونے دیتا لیکن رفتہ رفتہ مسلمانوں کا ایک طبقہ غیر اسلامی طاقتوں کی زد میں ہے، وہ طبقہ ہماری قوم کا سرمایہ نوجوان طبقہ ہے، جس کے نتیجے میں آج باطل طاقتیں خوش اور ہم شرمندہ ہیں۔ چاہے نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں دونوں ہی ہماری قوم کا بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ اگر یہی طبقہ غیر اسلامی حرکتیں انجام دے، گویا وہ اپنی حرکتوں سے قوم کو ذلیل و رسوا کرینگے تو انقلاب کا انتظار کرنا فضول ہے۔ ان کی حرکتیں اسلامی معاشرے کی اصلاحی تحریکوں کے کام کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھنے کے برابر ہیں اس مضمون کو لکھنے کا مقصد تنقید کرنا نہیں بلکہ پچھلے دو دن قبل کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر وائر ہوئے تھے جس میں دو مسلم لڑکیاں برقعوں کے ساتھ اسلامی شعار میں غیر مہذب حرکتیں انجام دے رہی تھی کیا یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہیں یہ ہماری غیرت کا جنازہ نکالنے کے لئے کافی ہیں اور شہر میی چل رہی اصلاحی معاشرے کی تحریکوں کو کھلا چیلنج ہے۔
اصل میں ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ موجودہ دور جن چیزوں کو پسند کرتا ہے ہمارا معاشرہ خود بخود اسے پسند کرنے لگتے ہیں اور آج بے حیائی بے، پردگی، بے راہ روی، نافرمانی اور بغاوت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کے ایک اشارے پر حیادار گھرانوں سے حیاء غائب ہو جاتی ہے اور اس بے حیائی کا سازو سامان ہم ہی میسر کر رہے ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لڑکیاں غلط ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوم کی نکیل مغرب زدہ ہو گئی ہے اور والدین کی بے حسی کی وجہ سے بچوں کے حوصلے بلند ہیں۔ حد درجہ بھروسے سے آپ کے نونہال آپ کی عزت کا جنازہ کب نکالے اس کا کوئی بھروسہ نہیں بچوں کی خواہشات کو پورا کیجئے ضرور پورا کیجئے مگر ایک حد میں رہ کر اس چیز کا احساس دلا کر آپ اس کے سکون کی خاطر وہ پھل کس طرح پروان چڑھ رہا ہے اس کی نگرانی کوئی اور نہیں کریگا۔ مغرب زدہ معاشرے کے حوالے ہم ہی کر رہے ہیں وہ بھی انتہائی محبت و شفقت سے۔ یاد رہے کہ ماحول کی طاقت مصلحین کے دلوں میں جگہ حاصل کرنے کا موقع تلاش کرتی ہے اور ذہنی مصالحت کی کو راہ نکال لیتی ہے۔ ماحول اس نسل کی نہ سہی اگلی نسل کی تباہی کا انتظام کر لیتا ہے ایک طر ف جہاں مغربی زدہ قومو ں نے ترقی کے نام پر جو عریانی فحاشی اور ننگے پن کو ترقی کا نام دیا ہے اس سے رفتہ رفتہ نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں اور ان فتنوں کو ہماری اپنی نوجوان نسل نعمت عظمی سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔
غرض یہ کہ نسل نو شہرت کے نشہ میں خاندانی نظام کا جنازہ نکال رہے ہیں اسلامی تہذیب سے لاتعلقی حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات سے بیگانگی، شریعت سے بیزاری، یہوودیت سے اپنائیت، بے حیائی و بے پردگی کا عام ہونا، انٹر کاسٹ میرج، لیو ان ریلیشن شپ، دوستی کے نام پر غیر محرم سے شناسائی، والدین کی نافرمانی، دنیا کی خرافات سے سے اپنا پن، یہ سب ثبوت ہے کہ مشرقی تہذیب کو دفن کر کے مغربی تہذیب نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں مفتوح قوموں کی بستیوں کے مکان پر ایک عدد سائن بورڈ نظر آتا تھا کہ ایک عدد مرد کی ضرورت ہے رات گزارنے کے لئے اب وہ دن دور نہیں کہ اس طرح کے سائن بورڈ ہمیں بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ افسوس صد افسوس!
محبت کے نام پر تعیش پسندی مالدار والدین کی لا پرواہ اور بگڑی ہوئی اولادوں کا مقدر بن کر رہ گئی ہیں کیونکہ شرافت اخلاق راہ روی اور پاکدامنی کے لئے مال حلال یا لقمہ حلال اولین شرط مقرر کی گئی۔ اس شرط کی تکمیل کے بنا انقلاب کا تصور تو دور کی بات ہے مسلمان ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ عشق معشوق کے نام پر غیروں سے دل جوئی شناسائی پھر مذہبی تعلیمات سے بغاوت اور انٹر کاسٹ میرج! انٹر کاسٹ میرج کو قانونی حیثیت حاصل ہیں اس لئے اس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے نوجوانوں کی اصلاح ضروری ہے وقت گذرجانے کے بعد صرف ماتم ہی مقدر بن جاتا ہے۔
پچھلے کچھ ماہ کا جائزہ لیں تو ہمارے شہر میں ان گنت معاملے سامنے آئے اور کئی لڑکیوں نے اپنے مسلم و غیر مسلم عاشقوں سے شادیاں رچالی ہے اور ان کے اس اقدام کے لئے والدین کی مکمل ذمہ دار ہیں جو روز رات میں اپنے نو نہالوں کو ساتھ لے کر گھنٹوں ٹی وی سیریل دیکھتے ہیں ہم یہ نہیں سوچتے اس سے ان معصوں پر کیا مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وقت سے پہلے مہنگے مہنگے قسطوں پر خریدے گئے اینڈرایئڈ موبائل کی فراہمی اور تحفہ دینے کے بعد اس کی باز پرس بھی نہیں کی جاتی۔ آیا وہ غلط استعمال کر رہا ہے یا صحیح؟ کس سے ملاقات ہوتی ہیں اس کا دن کس کے ساتھ گزرتا ہے اور کلاس کالجز میں اسکی کس سے دوستی ہے یہی غفلت بعد میں ماتم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین کو اس کا وقت کے ساتھ نوٹ لینا ہو گا۔ کیونکہ بچے وہی سیکھتے ہیں جو والدین سکھاتے ہیں اگر والدین وقت پر صحیح اصلاح کرتے رہیں تو بعد میں رونے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ آئین میں درج Freedom of Right ان بےحس والدین کے منہ پر تماچہ ہے جو وقت پر صحیح تربیت نہ دے کر اپنے بچوں کو گرل فرینڈ بوائے فرینڈ شپ ڈے ولین ڈائن ڈے کے حوالے کر رہے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لڑکیاں گھر سے باہر نکل گئی ہیں انہیں واپس گھر کے لئے لایا جائے اس کا طریقہ کار سوچنا پڑے گا۔ ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوا ہے وہ وقت دور نہیں
کہ پوری قوم تباہ ہو جائے (خدانخواستہ) جارج برناڈ شاہ نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھا معاشرہ دونگا۔