لاپتہ رضوان کاظمی کون ہیں؟
تحریر: معرفت حسین خان
ایک ہفتے قبل خبریں گردش میں آئیں کہ آئی ایس او کے سابق مرکزی صدر سید رضوان کاظمی لاہور سے لاپتہ ہوگئے ہیں۔
پہلے پہل تو اس خبر کی صداقت معلوم کی گئی پھر دوست احباب سے پوچھنا شروع کیا کے یہ صاحب کون ہیں؟
بات کھلی تو معلوم ہوا کے علی پور گھلواں سے تعلق رکھنے والے رضوان کاظمی 2005 – 2006 میں آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں۔ نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم تھے۔ اپنے دور میں اپنی سخاوت اور نیک کردار کی وجہ سے جانے جاتےتھے۔
مگر یہاں یہ سوال اٹھا کے آج 2018 کی آئی ایس او انکو نہیں جانتی اور نہ ہی اس حالیہ اغوا سے پہلے آئی ایس او کے عام کارکن کو انکا معلوم تھا۔ اسکی ایک اہم وجہ ہے اور شائد انکے اغوا ہونے میں بھی یہی چیز انکو فی الوقت غائب کیئے ہوئے ہے۔
آئی ایس او سے سابق ہونے کے بعد رضوان کاظمی جو کے پہلے سکاوٹ بھی رہے تھے ایک خاص اسلامی انقلابی نظریاتی طبقہ سے متعارف ہوئے(جو باقی نظریاتی انقلابیوں سے خود کو الگ سمجھتا ہے)۔ یہ طبقہ ایک نامور عالم دین کے ارد گرد کا قریبی حلقہ تھا جسکا ان دنوں آئی ایس او کے قریب ہونے کا مقصد اپنے مخصوص مقاصد کے لئے پہلے سے تیار انقلابی فکر کے نوجوانوں کو جذب کرنا اور انکو استعمال کرنا تھا۔
سید رضوان کاظمی تیزی سے ان عالم دین اور انکے حلقہ میں اہم ہوتے جاتے ہیں۔ لاہور میں ان عالم دین کی جانب سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور رضوان کاظمی کو ایک اسکاؤٹس کا دستہ تشکیل دینے کا کام دیا جاتا ہے جو اس وقت "المصطفٰی اسکاؤٹس” کے نام سے سرگرم یے۔ کچھ سالوں میں آئی ایس او اور اس عالم دین میں دوری پیدا ہوتی ہے اور رضوان کاظمی کا کام اب اس گروہ کو افرادی قوت مہیا کرنے میں لگ جاتا ہے کے اب ہمیں مزید آئی ایس او سے لوگ نہیں کھینچنے بلکہ خود کفیل ہونا ہے۔
اس بات سے یہ تو طے ہے کہ گزشتہ 9 برس سے رضوان کاظمی آئی ایس او سے خود کو دور اور نظریاتی طور پر الگ کرچکے تھے۔اسکے بعد ان کی تمام سرگرمیاں عروۃ الوثقیٰ نامی لاہور کے اس مدرسہ میں یا پھر سید جواد نقوی نامی عالم دین سےمنسوب تھیں البتہ حیران کن امر یہ ہے کہ جس طبقے سے منسوب تھے اور اپنی زندگی کے دس سال سے زائد ان کیلیے وقف کئے اس نے کیسے یکسر ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ انکو آئی ایس او کا سابق کہہ کر اپنی جان چھڑوائی۔
اس معاملے پر مولانا جواد نقوی کی خاموشی چہ معنی دارد؟ کسی بھی تحریک کا سربراہ باپ کی مانند ہوتا ہے۔ اگر اولاد پر برا وقت آجائے تو والد کی پریشانی بتاتی ہے کہ اس کی اولاد مصیبت میں ہے۔ باپ اپنے بچوں کو اس مصیبت سے نکالنے کے لئے ہر جتن کرتا ہے ہر اقدام کرتا ہے لیکن یہاں مولانا جواد نقوی نے مکمل خاموشی سادھ لی۔
یہاں پر مولانا سے وابستہ افراد کو سوچنا ہوگا کہ اگر ورکرز ٹیشو پیپر ہیں تو پھر انہیں اپنے مستبقل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔