پاکستانی شیعہ خبریں

حقیقی اسلامی انقلاب صرف ایران میں آیا ہے

HameedGul1200آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل حمید گل کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو لیا ہے، جو قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش خدمت ہے۔
سوال: ملک میں دہشتگردی، بدامنی، معاشی بدحالی اور غیر ملکیوں کا اثر و نفوذ، اسباب کیا ہیں اور اس سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔؟
ریٹائرڈ جنرل حمید گل:امریکہ نے بلآخر اس خطے سے جانا ہے اور اُس کے جانے سے پہلے پہلے ہم نے ایک نظام قائم کرنا ہے۔ ملک میں اس وقت تبدیلی کی کیفیت موجود ہے۔ لوگ انقلاب کی طرف مائل ہیں، وطن عزیز کو ایک پرامن انقلاب کے ذریعے سے ہی ان بحرانوں سے نکالا جاسکتا ہے، وہ انقلاب آئین میں موجود تضادات کو ختم کرنے میں معاون ہو گا اور عدالتی نظام میں بہتری بھی پیدا کرے گا۔ ہم ایک نئے راستے پر گامزن ہو پائیں گے اور پاکستان ایک روشن اور درخشاں مستقبل کی جانب سفر کرے گا۔ اگر ہم امریکہ کے خطے سے جانے سے پہلے یہ نہ کر پائے تو پھر ملک میں خون خرابہ اور خانہ جنگی کی کیفیت ہو گی اور اس حالت سے نکلنے کیلئے ہمیں 25 سے 30 سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہو گا، اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاریخ اس وقت کروٹ لے رہی ہے اور پورا خطہ اس تبدیلی کی جانب جا رہا ہے۔ اس وقت ہمارے لئے معاشی صورتحال پریشان کن ہے، قرضوں کا بوجھ پاکستان کا گلا گھونٹ رہا ہے، ان قرضوں نے قوم کا خون نچوڑا ہے۔ یہ قرضے باقاعدہ طور پر قوم پر زبردستی مسلط کیے گئے ہیں، یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے کیونکہ مینیجمنٹ نہیں کی گئی اور جو مینجمنٹ کی گئی وہ آئی ایم ایف کے دیئے گئے اصولوں کے مطابق ترتیب دی گئی۔ لہٰذا ہم قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنی حاکمیت، آزادی اور عزت کھو چکے ہیں۔ حتیٰ اب ہماری سیکیورٹی بھی داؤ پر لگ چکی ہے، جیسا کہ حال ہی میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ پر ظاہر ہوا ہے کہ وہ ہماری سیکیورٹی پر ایک بڑا ٹھریٹ تھا اور اس طرح کئی سو ریمنڈ ڈیوس ملک میں گھوم رہے ہیں۔
امریکہ ہمارا دوست بن کر ہماری خدمات حاصل کر کے ہمارا خون نچوڑا رہا ہے۔ اور ہمیں آپس میں لڑایا جا رہا ہے، ملک کو تقسیم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ را اور موساد اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں جبکہ امریکہ بھارت اور اسرائیل کو اپنی مکمل آشیر باد دیئے ہوئے ہے۔ ان کا دوست بنا ہوا ہے اور دنیا کے اسٹریٹیجک معاملات طے کرنے کیلئے اُن کا دوست اور ساتھی بنا ہوا ہے۔
سوال: موجودہ پولیٹیکل سیسٹم سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ یہ ملک کو ان بحرانوں سے نکال سکیں گے۔؟
جنرل حمید گل:اس وقت ہمارا پولیٹکل سیسٹم مکمل طور پر ناکام چکا ہے، اس نظام کے اندر تبدیلی اور بہتری کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ اس نظام میں اگر کوئی فرشتہ بھی آ جائے تو وہ بھی کامیاب نہیں ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نظام میں خرابیاں اور پیجیدگیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ اب اس کے ٹھیک ہونے کا کوئی چانس نہیں رہا۔ بدقسمتی سے عدالت مظلوموں کیلئے ظالم بنی ہوئی ہے اور مظلوم در بدر کے دھکے کھا رہا ہے، بے کسوں کی داد رسی نہیں ہو رہی، ظالم کے ہی حق میں فیصلے ہو رہے ہیں۔ موجودہ اعلیٰ عدلیہ نے کچھ ایسے فیصلے کیے ہیں کہ عوام کسی حد تک خوش دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے باقی تمام سوشل سیکٹر ہیں جن میں ہیلتھ ہے، ڈاکٹر قصائی بنے ہوئے ہیں، پیسہ ہے تو علاج ہو گا ورنہ مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرجائے گا اس کا کوئی علاج نہیں ہو پائے گا۔ نظام تعلیم بلکل ناقص ہے، جو تین حصوں میں بٹا ہوا ہے، جن میں گورنمنٹ، پرائیوٹ سکولز اور تیسرا او لیول کے سکول ہیں، جبکہ امیر طبقے کے بیٹے تو ویسے بھی باہر جا کر پڑھتے ہیں۔ یعنی معاشرے میں تقیسم در تقسیم کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف ملک میں فرقہ واریت کا سماں ہے، جس نے ہماری توانائیوں کو نچوڑ کے رکھ دیا ہے، آپس میں لڑ لڑ کے قوم کی بری حالت ہو چکی ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ملکر بیٹھتے ہیں جیسے ابھی ناموس رسالت کے ایشو پر مل بیٹھے، لیکن استعمار کو یہ مل کر بیٹھنا پسند نہیں آیا۔ اُن کی خواہش یہی ہے کہ یہ لوگ آپس میں لڑتے رہیں۔
اب سیاسی پارٹیوں میں بھی سیاسی فرقہ واریت پیدا ہو گئی ہے، سیاسی رہنماؤں میں کوئی اخلاص نہیں، ملک سے محبت نہیں، یہ لوگ محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر میدان میں اترتے ہیں اور ایوانوں میں پہنچ کر قوم کو بھول جاتے ہیں، یہ لوگ صرف اور صرف اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں اور بس۔ عوام ان سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور اس وقت بے چینی کی صورتحال سے دوچار ہے کہ ان کے مسائل لیکر چلنے والے کوئی نہیں ہے۔ اگر امریکہ کے اس خطے سے جانے سے پہلے پہلے معاملات کو نہ سبھالا گیا تو یہاں کوئی اچھی صورتحال نہیں ہو گی۔ اگر ان جماعتوں نے ان ایشوز کی جانب توجہ نہ دی، تو پھر یہ بھی مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو اپنے ذہن میں رکھیں، جہاں اب سب طوفان کی زد میں آ رہے ہیں اور اپنے ہی ملک میں اپنے ہم وطنوں سے محفوظ نہیں۔
تمام اداروں کو ملک کے لئے
کام کرنا ہو گا۔ اس وقت فوج نے اپنے آپ کو اقتدار سے دور رکھا ہوا ہے یہ اچھی بات ہے، لیکن اس چیز سے عوام میں مایوسی گہری ہوتی چلی جا رہی ہے جبکہ اپوزیشن اپنا صحیح کردار ادا نہیں کر رہی۔ اپوزیشن کا کام چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے۔ ابھی اپوزشین نے کچھ اسٹینڈ لیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ آگے چل کر اپوزیشن اپنا کردار ادا کرتی ہے یا پھر صرف ٹامک ٹویاں ہیں۔
سوال: ریمنڈ ڈیوس کون تھا اور پاکستان میں کیا کر رہا تھا،؟ اس سے متعلق کچھ قوم کو آگاہ کریں۔
جنرل حمید گل:ریمنڈ ڈیوس جاسوس ہے، وہ ڈپلومیٹ نہیں ہے، اس پر مزید میں بحث نہیں کروں گا اس پر کافی آراء سامنے آ چکی ہیں۔
سوال :انقلاب اسلامی ایران نے عالم اسلام کو اپنے مشترکہ دشمن کی شناخت کرائی، ملک میں شیعہ سنی وحدت کیلئے انقلابی قیادت نے ہفتہ وحدت، یوم القدس جیسے پروگرامات کا احیا کیا،لیکن پاکستان میں ایک سازش کے تحت اسے خطرہ بنا کر پیش کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری قوم اس انقلاب سے مستفید نہ ہو سکی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں یہ ایک استعماری سازش کا حصہ تھا اور قوم کو فرقہ واریت کی آگ میں دھکیل دیا گیا؟
جنرل حمید گل:دیکھیں شروع میں کچھ غلطیاں ہوئی، پاکستان میں ایسا لگا کہ یہاں بھی ولی فقیہ کے نظام کو لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ یہاں آیت اللہ منتظری کے دفاتر قائم کیے گئے، جس کی وجہ سے ملک میں یہ سوچ پیدا ہوئی، البتہ بعد میں اس کا رخ استعمار کے خلاف حکمت عملی طے کی گئی، لیکن اس وقت تک امریکہ اپنا کام دکھا چکا تھا۔ عراق ایران جنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے اور اس کو استعمار نے شیعہ سنی کیخلاف جنگ کے طور پر استمعال کیا۔ پاکستان میں باقاعدہ گروپس بنے، جن میں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، سپاہ محمد اور آئی ایس او شامل ہیں اور یہاں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ باقاعدہ ایک پلان کے تحت ہوا۔
:سوال: آئی ایس او انقلاب اسلامی ایران کی آمد سے پہلے 1972ء میں قائم ہوئی جبکہ انقلاب اسلامی 1979ء میں آیا تو اس طلبہ جماعت کو آپ کس طرح فرقہ وارنہ جماعتوں کی صف میں شامل کر رہے ہیں۔؟
جنرل حمید گل:میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آئی ایس او کو اس وقت اٹھان ملی، آئی ایس او کو میں بذات خود بہترین طلبہ جماعت سمجھتا ہوں، اس کا ماضی پاک ہے۔ میں خود کئی مرتبہ امامیہ طلبہ کے پروگرامات میں شریک ہوا ہوں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ انقلاب کے بعد آئی ایس او کو بوسٹ اپ ملا۔
سوال:نرل صاحب آپ کرنل امام کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ دیکتھے ہیں۔؟
جنرل حمید گل:جی مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا ہے کہ کرنل امام کو مار دیا گیا ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ایک بڑا نقصان ہے، وہ ایک عظیم مجاہد انسان تھے۔ ان کے قتل میں انڈیا کا ہاتھ ہے، جو یہاں فسادات کرا رہا ہے، کیونکہ اس طرح کی کارروائی انڈیا سے بعید نہیں۔
:سوال: آج کے برطانیہ کے اخبار گارڈین میں یہ اسٹوری چھپی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے ساتھ تعلقات تھے، اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جنرل حمید گل:جی تحریک طالبان محسود گروپ کے ساتھ ان کے تعلقات ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ امریکہ منحرف لوگوں کی خدمات حاصل کر رہا ہے، اس میں انڈیا بھی شامل ہے۔ وہ طالبان جو اس وقت گمراہ ہو چکے ہیں اور پیسوں کے چکر میں ہیں، وہ اس طرح کے اقدامات کرتے ہیں۔
سوال: ان ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔؟
جنرل حمید گل: امریکہ کے اس خطے سے جانے سے پہلے ایک مشترکہ کونسل بنائی جائے، جو حکم جاری کرے اور باقی سب اس کی اطاعت کریں اور درمیان میں قرآن مجید کو رکھا جائے۔ آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنا بند کر دیئے جائیں، تاکہ اس لعنت سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے۔ ان کی ادائیگی موخر کر دی جائے، شروع میں ہمیں تنہا کرنے کی بھی دھمکی دی جائے گی، لیکن گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ دنیا پاکستان کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ دوسری بات یہ کہ اگر ہمیں کچھ عرصہ کیلئے تنہا کر بھی دیا جائے تو پاکستان کو چین اور اسلامی ملک ایران تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ہمیں خود انحصاری کی طرف لوٹنا ہو گا۔
سوال:مشرق وسطیٰ میں موجودہ تبدیلی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
جنرل حمید گل: جی اس وقت مصر، تیونس، یمن، لبیا اور دیگر ممالک میں تبدیلی کی لہر چلی ہوئی ہے، لیکن ایک بات جو قابل افسوس ہے کہ وہاں کی افواج عوام کے ساتھ ہونے کی بجائے وہ امریکہ اور عالمی استعمار کے ایجنٹوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ اس تبدیلی کو حقیقی تبدیی تب کہیں گے جب یہ عوام کی امنگوں کے مطابق تبدیلی ہو گی۔ یہ بات روشن ہے کہ ابھی تک طول تاریخ میں حنفی کہیں پر کوئی انقلاب نہیں لائے۔ افغانستان میں انقلابی صورتحال چل رہی ہے، لیکن جب وہاں تبدیلی آئے اور ملک کا نظم و نسق قرآن و سنت کے مطابق ہو تو اسے انقلاب اسلامی کہہ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ ابھی تک جو حقیقی اسلامی انقلاب آیا ہے وہ صرف ایران میں آیا ہے، جہاں پر اہل تشیعُ کی اکثریت ہے۔
سوال: کہا جا رہا ہے کہ ایک ہزار سے زائد لوگ بلیک و
اٹر اور سی آئی اے یا امریکی ایجنسیوں کے لوگ وطن عزیز میں پھر رہے ہیں، لیکن ایک بات واضح کریں کہ اگر یہ لوگ واقعاً پھر رہے ہیں تو ہماری ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں۔؟
جنرل حمید گل: دیکھیں ہماری ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں، ان کا کام یہ نہیں کہ وہ خود سے کوئی ایسا ایکشن لیں۔ اگر ایجنسیاں کوئی کام کرتی ہیں تو پھر کہا جاتا ہے کہ ملک کے سیاسی نظام کو کمزور کیا جاتا ہے۔ یہ حکومت کے کام ہوتے ہیں۔ ملک کو مشرف نے امریکہ کے ہاں گروی رکھ دیا جبکہ موجودہ جمہوری حکومت ان سے معاہدہ کر کے اقتدار میں آئی ہوئی ہے۔ ایسے میں ان لوگوں سے آپ کیا امید کر سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button