بلوچستان جل رہا ہے
ذوالفقار نقوی کی عمر 40 کے قریب تھی اور آج کل کوئٹہ میں ایڈیشنل سیشن جج کے فرائض انجام دے رہے تھے کہ کوئٹہ کی ایک معروف شاہراہ پر موٹر سائیکل سواروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے، مرحوم کے بوڑھے باپ نے کہا کہ قاتل گھنٹوں نقوی کے قتل کے مقام پر رہے اور پھر اطمینان سے اپنی کمین گاہ میں چلے گئے، ذوالفقار نقوی کے قتل کے بعد 10 لوگوں کو زندگی سے محروم کر دیا گیا، بلوچستان میں 8 ماہ کے دوران 450 مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جن میں سے بیشتر سیاسی کارکنوں اور ان کے رشتہ داروں کی ہیں، اسطرح بلوچستان میں 1300 افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے رہنماء حاصل بزنجو نے ایک ایف ایم ریڈیو کو انٹرویو میں بتایا کہ بلوچستان میں کالی گاڑیاں خوف اور موت کی علامت بن گئی ہیں، خفیہ ایجنسیوں کے کارندے کالی گاڑیوں میں آتے ہیں اور لوگوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیم HRCP نے لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر بلوچستان کے بارے میں حقائق پر مبنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کوئٹہ انتہاء پسندوں کی جنت بن گیا ہے۔
مذہبی انتہاء پسند ہزارہ برادری اور شیعہ فرقے کے افراد کو قتل کرتے ہیں اور ریاستی احتساب سے محفوظ رہتے ہیں، ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ریاست موجود نہیں ہے، اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں کوئی سرکاری ملازم ڈپٹی کمشنر، مجسٹریٹ، جج، ڈاکٹر، پولیس افسر، استاد فرائض انجام دینے پر تیار نہیں، یوں ڈیرہ بگٹی ریاستی اہلکاروں کیلئے No go area بن گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچ شہریوں کے قتل میں فرنٹیئر کانسٹبلری اور خفیہ عسکری ایجنسیوں کے اہلکار ملوث ہیں، بلوچستان سے یوں تو روزانہ ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کی خبریں آتی ہیں مگر وہاں کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کئی قسم کی لاقانونیت کی بدنماء صورتحال نظر آتی ہے، بلوچستان کے شہروں خاص طور پر کوئٹہ اور اطراف کے علاقوں میں ہزارہ برادری صدیوں سے آباد ہے، پھر شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے مقامی اور غیر مقامی افراد بھی آباد ہیں۔ یہ ہزارہ برادریاں زیادہ تر متوسط طبقے پر مشتمل ہیں، ان برادریوں کی خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح اطمینان بخش ہے۔
ہزارہ برادری کے بہت سے افراد خلیجی ممالک کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں آباد ہیں، یوں یہ لوگ سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں بھی نمایاں ہیں، القاعدہ اور طالبان سے منسلک قوتیں ان لوگوں کی ترقی کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتی ہیں اور بعض بلوچ گروپ بھی اس بارے میں طالبان کے ہم خیال ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچستان حکومت میں شامل بعض بلوچ وزراء فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کی سرپرستی کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چار سالوں سے کوئٹہ شہر جو کل دو سے تین بڑی سڑکوں پر مشتمل ہے، حکومتی اعلانات کے باوجود فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ میں کسی صورت کمی نہیں ہوتی۔
بلوچستان کا اہم مسئلہ بلوچ سیاسی کارکنوں پر ریاستی تشدد کا ہے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں جسٹس مری کے قتل کے بعد بلوچ کارکنوں کے اغواء کا مسئلہ شروع ہوا، پہلے مری قبیلے کے سردار نواب خیر بخش مری کے حامیوں کو اغوا کیا، جن میں سے کچھ اب تک لاپتہ ہیں، پھر سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں تیزی آگئی۔
نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے بعض گروہوں نے دوسرے صوبوں سے آکر آباد ہونے والے افراد کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس لہر میں سرکاری افسر، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، اساتذہ، دکاندار حجام تک قتل ہوئے، بلوچستان کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ دوسرے صوبوں کے افراد کے قتل کے پس پردہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار سرگرم عمل تھے، پھر سیاسی کارکنوں کے اغواء کے بعد ان کی لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا، کوئٹہ میں فرائض انجام دینے والے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ خفیہ عسکری ایجنسیوں اور فرنٹئیر کانسٹبلری کے اہلکاروں نے سیاسی کارکنوں کا اغوا اور انہیں قتل کرنے کی حکمت عملی تیار کی اور ان پر خوب عملدرآمد کیا۔
سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے مقدمے کی سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کی تو عدالت کے سامنے اس بارے میں ثبوت پیش کئے گئے، ججوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قتل کی وارداتوں میں خفیہ ایجنسیوں اور فرنٹیئر کانسٹبلری کے اہلکاروں کا نام بار بار آتا ہے، جسٹس افتخار چوہدری نے بعض متاثرین کی درخواست پر اغواء ہونے والے افراد کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا، مگر معزز عدالت نے اگلی سماعت پر کہا کہ عدالت نے جن لوگوں کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا اس میں سے کچھ قتل کر دیئے گئے۔
پھر فرنٹیئر کانسٹبلری کے کمانڈنٹ نے اس بارے میں ایک پریس کانفرنس بھی کی، جس پر سپریم کورٹ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ مگر جب کمانڈنٹ اگلی سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو یہ معاملہ تھم گیا، مگر سیاسی کارکنوں کے اغواء، ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کے ساتھ فرقہ ورانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ جاری رہا۔
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کے بگڑتے ہی اغوا برائے تاوان کی وارداتیں شروع ہوئیں، ہندو اور پا
رسی کمیونٹی کے افراد اغوا ہوئے، ان میں سے کچھ تاوان دے کر رہا ہوئے، کچھ تاوان دینے کے باوجود قتل کر دیئے گئے۔ پھر ڈاکٹر، افسروں کے اغواء اور تاوان طلب کرنے کے واقعات بڑھ گئے پھر آغاز حقوق بلوچستان کے پیکج کا اعلان کیا گیا، جس کے نتیجے میں خاصے نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں مگر صدر زرداری فرنٹیئر کانسٹبلری اور خفیہ ایجنسیوں کے آپریشن کو رکوا نہیں سکے، ان کے وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے بلوچستان کی صورتحال میں بھارت، افغانستان اور دوسرے ممالک کو ملوث قرار دینا شروع کیا، اس دوران نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی نے افغانستان چھوڑ کر سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔
حکومت پاکستان نے برطانیہ میں نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے کی سیاسی پناہ کی درخواست پر اعتراض واپس لے لیا، یوں انہیں لندن میں قیام کی اجازت مل گئی، مگر یہ سب کوششیں حالات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لاسکیں، بلوچستان کے وزیر اعلٰی اسلم رئیسانی نے بار بار کہا کہ ان کی حکومت کی عملداری صرف کوئٹہ تک ہے، باقی صوبے پر فرنٹیئر کانسٹبلری کی حکومت ہے، مگر صدر زرداری اپنے وزیر اعلٰی کے اس بیان پر توجہ نہیں دے سکے، بلوچستان میں اب کچھ تبدیلیاں رونماء ہونے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ قوم پرست رہنماء سردار اختر مینگل، حاصل بزنجو، ڈاکٹر ملک اور ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ وغیرہ ایک مشترکہ جماعت میں متحد ہو رہے ہیں، یوں پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے رہنمائوں کا متحد ہونا ایک اچھی خبر ہے، پھر ان رہنمائوں کے علاوہ دوسری سیاسی قوتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ بلوچستان سے عسکری بالادستی کو ختم کیا جائے۔ خفیہ ایجنسیوں کو صوبائی حکومت کے ماتحت اور فرنٹیئر کانسٹبلری کو صوبے سے نکالا جائے، صوبے میں عام معافی کا اعلان کیا جائے اور سیاسی کارکنوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پھر پولیس کے اختیارات فرنٹیئر کانسٹبلری کو سونپ دیئے گئے ہیں۔ یوں پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں کے مطالبات کو نظر انداز کرنے کی اہمیت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اب ہزارہ برادری کے لوگ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے افسروں سے مدد مانگ رہے ہیں، اب بھی بلوچستان میں ہزارہ برادری اور بلوچوں کی نسل کشی ختم نہیں ہوئی، تو پھر بہت سی عالمی طاقتیں ان کی مدد کیلئے منظر عام پر آجائیں گی، پھر مستقبل کیا ہوگا یہ پردہ سکرین پر نظر آ رہا ہے۔