سید حسن رضا شمسی کا قتل معمولی واقعہ نہیں، اس کا نوٹس لیا جائے، ورنہ پھر ہم خود نوٹس لینگے،رہنماء سپاہ محمد سید شاکر حسین نقوی
شیعہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور سابق سیکرٹری جنرل سپاہ محمد (ص) پاکستان سید شاکر حسین نقوی کا تعلق لاہور سے ہے۔ آپ پاکستان بھر میں جاری شیعہ نسل کشی کے حوالے سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے حامی ہیں۔ مجاہد ملت شہید سید حسن رضا شمسی کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ شہید سید حسن رضا شمسی کی مظلومانہ شہادت کے حوالے سے نمائندے نے سید شاکر حسین نقوی کا انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔
نمائندہ : پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے۔؟
شاکر نقوی: ہمارا نقطہ نظر یہی ہے کہ جب تک ہم اپنا تحفظ بندوق سے نہیں کریں گے، کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا، نہ گورنمنٹ اور نہ کوئی اور، شیعہ قتل عام جنرل ضیاء کے دور میں 1986ء میں شروع ہوا، جب جہادی تنظیمیں بنائی گئیں، وہی آج دہشت گردوں کی گروہ بن گئی ہیں۔ ہم نے شیعہ قتل عام کو روکنے کے لئے 1994ء میں سپاہ محمد (ص) بنائی۔ ہم نے بھی اعلان کیا کہ جہاں کہیں بھی ہمارا کوئی شیعہ قتل ہوگا تو ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ الحمد للہ ہم اپنے اس مشن میں کامیاب رہے۔ اس وقت جب ہمارے علماء کہتے تھے کہ ہم جنازے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔ سپاہ محمد کے ری ایکشن سے یہ ہوا کہ سپاہ صحابہ کے اکابرین کہنے لگے کہ ہم جنازے اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں۔
سپاہ محمد کے اس رد عمل ہی سے 1995ء ملی یکجہتی کونسل وجود میں آئی۔ بڑی دینی جماعتون کے اکابرین جن میں قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن، ساجد نقوی، ساجد میر، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم اور دیگر اکٹھے ہوئے۔ اگلی میٹنگ انہوں نے کراچی میں رکھی، جس کے لئے انہوں نے کہا کہ ہم سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں گے۔ ہم نے ایک شرط رکھی کہ اگر کمیٹی مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کو چیئرمین بناتی ہے تو تب ہم اس میں شامل ہوں گے، ورنہ ہم کسی دیوبندی اور اہل حدیث کے کہنے پہ ملی یکجہتی کونسل میں نہیں جائیں گے۔ لہذا مولانا شاہ احمد نورانی کو اس دو طرفہ قتل و غارت کو روکنے کے لئے چیئرمین بنایا گیا۔ لہذا ہم اس میں بہت حد تک کامیاب رہے۔
نمائندہ: سپاہ محمد (ص) اس وقت غیر فعال ہے جبکہ اس کے مدمقابل نئے ناموں سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
شاکر نقوی: اواخر 1996ء میں ایسا ہوا کہ کچھ اپنوں اور کچھ ایجنسیوں کی مہربانی سے سپاہ محمد کو برباد کر دیا گیا۔ ہم سب گرفتار ہوگئے، جیلوں میں چلے گئے۔ میں 33 مہینے جیل میں رہا اور 2000ء میں رہا ہوا۔ غلام رضا نقوی جو سپاہ محمد کے سربراہ ہیں، سولہ سال سے پابند سلاسل ہیں۔ ہمارے دیگر ساتھی وہ بھی گزشتہ سولہ برسوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں کچھ لوگ جھنگ، کچھ ملتان اور کچھ لاہور میں ہیں۔ 1166 دہشت گرد جن میں سری لنکن ٹیم پر اور ایف آئی اے کی بلڈنگ پر حملہ کرنے والے اور دوسرے دہشت گرد شامل ہیں، جو حکومت پنجاب کے پراسیکیوشن فراہم نہ کرنے کی وجہ سے عدالتوں نے چھوڑ دئیے۔ یہاں تک کہ 102 قتل میں ملوث ملک اسحاق کو چھوڑ دیا گیا، جو سزائے موت کا قید تھا، اس کی اپیل پر اسے چھوڑ دیا گیا۔
چار سال سے غلام رضا نقوی کی ہائی کورٹ کے اندر اپیل لگی ہوئی ہے، اس کی تاریخ ہی نہیں نکل رہی۔ تو یہ ہمارے ساتھ جو دوسرے درجے کے شہری کا سلوک ہو رہا ہے اور کلنگز ہو رہی ہیں، جیسے کوئٹہ میں ہمارے ہزارہ کمیونٹی کے لوگ اور گلگت جانے والے مسافروں کو بسوں سے اتار کر مارا جا رہا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ لاہور میں بم دھماکے رہے ہیں۔ ان مسلسل واقعات کا سدباب صرف حکومت کے بس کی بات نہیں، کیونکہ حکومتیں اس معاملے میں سنجیدہ اقدام لینے پر تیار ہی نہیں ہیں۔ انہیں اس سے سروکار نہیں ہے کہ قتل عام کتنی بے دردی سے اور کتنے بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔
نمائندہ: کیا وجہ ہے کہ حکومت دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔؟
شاکر نقوی: ہم سمجھتے ہیں حکومتوں اور ایجنسیوں کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ ان میں سیاسی ہمدردیاں اور وابستگیاں ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہوگی، سیاسی لوگوں نے ووٹ لینے ہوتے ہیں، لہذا آج بھی میں یہ بات ڈنکے کی چوٹ یہ کہہ رہا ہوں کہ اس قتل عام کی راہ روکنے کے لئے ہمیں خود اقدام لینا ہوگا، اسی میں ہمارا تحفظ ہے۔ حکومتیں اور ایجنسیاں ہمیں مجبور کر رہیں ہیں۔ کہ ہم بندوق اٹھائیں اور قاتل گروہوں کا مقابلہ طاقت سے کریں۔ پاکستان ہماری کوششوں سے اس لئے وجود میں نہیں آیا تھا کہ کہ اسے فسادیوں کے حوالے کر دیا جائے۔ ان قاتل لوگوں کے آباو اجداد نے تو پاکستان بنانے کی مخالفت کی تھی۔
آج یہی لوگ پاکستان بنانے والے شیعہ اور سنیوں کے قتل میں ملوث ہیں۔ ان کے نزدیک شیعہ بھی کافر ہیں اور سنی بھی کافر ہیں۔ ان لوگوں کو جنرل ضیاءالحق نے مضبوط کیا۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان (یہ دو وزیرستان ہیں) شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کا جتنا بھی ایلی منٹ ہے، وہ سارے اہل حدیث ہیں، جن میں القاعدہ، تحریک طالبان (مولوی فضل اللہ) تحریک شریعت محمدی (صوفی محمد)، الدعوۃ (حافظ سعید) یہ ساری اہل حدیث ہیں۔ ان دونوں اطراف کو ضیاءالحق نے تحفظ دیا۔ ان کو کہاں کہاں سے سپورٹ مل رہی ہے، یہ ساری دنیا جانتی ہے۔
نمائندہ: غلام رضا نقوی کا کیس کس پوزیشن پر ہے اور ہماری شیعہ جماعتوں نے انہیں رہا کروانے کے لئے کیا کچھ کیا ہے۔؟
شاکر نقوی: اعظم طارق پر 22 اگست 1994ء میں جو حملہ ہوا تھا، یہ دراصل کراس فائرنگ تھی، جس میں دو آدمی مرگئے تھے، اس کیس میں حکومت نے غلام رضا نقوی کو عدالت سے سزائے موت دلوا دی ہے۔ حالانکہ جب گورنمنٹ نے مجھے 2005ء میں دوبارہ پکڑ کے نظر بند کیا تھا، اس وقت غلام رضا نقوی رہا ہوئے تو فقط ایک دن کے بعد انہیں پھر DPO کے تحت نظر بند کر دیا گیا۔ اس پر غلام رضا نقوی نے ہارئیکورٹ میں رٹ داخل کرائی کہ میں تو اتنے عرصے سے جیل میں ہوں، مجھ پر تو ڈی پی او لاگو نہیں ہوتا، مجھ پر تو دفعہ 144 کا نفاذ لگتا ہی نہیں، ان کی یہ رٹ منظور ہوگئی اور ان کو پھر رہا کر دیا گیا۔
ان کی رہائی کے ایک دن بعد ایک جھوٹا پرچہ ان پر ڈال دیا گیا کہ جب یہ رہا ہوئے تو بہت ہوائی فائرنگ ہوئی۔ شادمان تھانہ لاہور نے اس پرچے کے تحت انہیں جیل بھیج دیا۔ اسی دوران میں جبکہ اعظم طارق والے کیس میں ضمانت پر تھے، ایک دم سے عدالت نے اس کی پروسیڈنگ شروع کی اور غلام رضا نقوی کو سزائے موت سنا دی گئی۔ چار سال سے ان کی اپیل ہائی کورٹ میں موجود ہے، لیکن عدالت اس کو سننے کو تیار نہیں اور اس کی تاریخ تک نکالنے کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا۔ غلام رضا نقوی اور ان کے ساتھی سولہ سال سے پابند سلاسل ہیں۔ نہ تو اس کا احساس پنجاب حکومت کو ہیے، نہ مرکزی حکومت اور نہ خود شیعہ قوم کو۔ اپنی قوم نے بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ کوئی ان کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کس قدر افسوسناک امر ہے کہ کہیں سے کوئی مؤثر آواز ان کے حق میں بلند نہیں ہو رہی۔
میں ببانگ دہل ایک بات کہوں گا کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ یہ اپنے فیصلے خود نہیں کرتی ہے۔ ایسے جج ہیں جو بااثر شخصیات کے کہنے پر فیصلے کرتے ہیں اور دہشت گردوں کے پریشر کی وجہ سے آزادانہ فیصلے نہیں کرتے۔ چنانچہ اس حوالے سے پاکستان کی تاریخ میں گندہ ترین رول عدلیہ کا ہے۔
نمائندہ: سزا کاٹنے کے باوجود شہید سید حسن رضا شمسی کو قید میں کیوں رکھا گیا۔؟
شاکر نقوی: مسجد الخیر واقعے میں آٹھ جوانوں کو گرفتار کیا گیا، جنہیں بائیس دفعہ موت کی سزا سنا دی گئی۔ 2002ء میں ہم خواجہ سلطان کو اپنا وکیل مقرر کرکے ان کی بے گناہی کو عدالت میں ثابت کیا اور اس طرح ان کی سزائے موت توڑوا دی گئی۔ آج سے دو سال قبل ان تمام افراد کی عمر قید کی سزا ختم ہوچکی تھی۔ غلام رضا نقوی، محمد علی فوجی، علی رضا، اسد نقوی اور اعجاز عدالت کی دی ہوئی سزا کو پورا کرچکے ہیں، لیکن حکومت اپنی من مانی کر رہی ہے اور انہیں رہا کرنے سے گریزاں ہے۔
سپریم کورٹ سے ان تمام افراد کا سزائے موت سے بری ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں۔ ان سے کوئی آلہ قتل یا کوئی ایسے شواہد نہیں ملے جس سے ظاہر ہو کہ یہ لوگ اس واقعے میں ملوث تھے۔ حکومت صرف اور صرف تعصب کی بناء پر انہیں پابند سلاسل رکھ رہی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تعصب اور شیعہ دشمنی کی بناء پر اور جلد بازی میں ان کو سزائے موت سنائی، جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں۔
بحیثیت کنوینر شیعہ ڈیموکریٹک پارٹی، میں چیف جسٹس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ شہید سید حسن رضا شمشی کی شہادت کا ازخود نوٹس لیں اور جیل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف کارروائی کریں، حسن شمشی کا قتل معمولی واقعہ نہیں ہے، اس پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے، اگر چیف جسٹس نے سابقہ سانحات کی طرح ان واقعات پر بھی آنکھیں بند رکھیں تو پھر ہم خود کوئی نہ کوئی اقدام اٹھائیں گے۔ چیف جسٹس کو ہم ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ اس قتل پر ازخود نوٹس لیں ورنہ پھر ہم خود نوٹس لینے کی پوزیشن میں ہیں۔