مضامین

حزب اللہ کا ڈرون، صہیونیوں کے لئے موت کا پیغام

hizbulla droan newانجان سمت سے آئے ہوئے ڈرون طیاروں کا خوف کچھ اسطرح ذہنوں پر مسلط ہوگیا تھا کہ سب کے ذہنوں میں یہ تاثر تھا کہ ریڈار کی آنکھوں سے اوجھل طیاروں کو مار گرایا نہیں جا سکتا، یا دوسرے لفظوں میں امریکی و اسرائیلی ٹیکنالوجی کے حامل یہ ڈرون طیارے ناقابل تسخیر ہیں۔ لیکن یہ سحر اس وقت ٹوٹا جب ایران نے جدید ترین امریکی ڈرون طیارے آر۔کیو۔ 170 کو ایرانی حدود میں اتار لینے کا اعلان کیا۔یہ ٹیکنالوجی کی جنگ میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف بہت بڑی کامیابی تھی۔ امریکہ و اسرائیلیوں کو جیسے سکتہ ہوگیا ہو۔ پہلے تو انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ امریکی ڈرون طیارہ ایرانی حدود میں فنی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ لیکن جب ایران نے صحیح سالم 50 کروڑ سے زائد مالیت کے ڈرون کو میڈیا کے سامنے پیش کیا تو امریکیوں اور اسرائیلیوں کو بھی قبول کرنا پڑا۔ لیکن یہ بات ایک معمہ سے کم نہیں تھی کہ جدید ترین ڈرون کو ایران نے کیسے قابو کیا ۔ امریکہ و اسرائیل تو ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے، لیکن ایرانی ماہرین نے جدید امریکی ڈرون اتار کر ثابت کر دیا کہ وہ غافل نہیں بیٹھے اور ان کا دِفاع خوب مضبوط ہے۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر ڈرون کے سسٹم میں کوئی خرابی ہو تو ڈرون کا خودکار پائلٹ کام کرنے لگتا ہے اور ڈرون کو وہیں لے جاتا ہے جہاں سے اڑا تھا یا اگر واپسی کا سفر ممکن نہ ہو تو خودکار دھماکے سے طیارے کو تباہ کر دیا جاتا ہے، تاکہ اس طیارے کی ٹیکنالوجی اور خفیہ رازوں کا پتہ نہ لگایا جاسکے۔ منفرد قسم کے انتہائی پیچیدہ دفاعی سسٹم کے حامل، امریکی ڈرون اتارنے کا کام اتنی مہارت سے کیا گیا کہ خود طیارے کے خودکار سسٹم کو بھی احساس نہیں ہو پایا کہ اسے امریکی نہیں بلکہ ایرانی ماہرین کنٹرول کر رہے ہیں۔ امریکیوں کیلئے ڈرون کا تباہ ہو جانا زیادہ بہتر تھا بہ نسبت اسکے کہ انکی ٹیکنالوجی کسی کے ہاتھ لگے وہ تو اپنے معمولی قسم کے آپاچی ہیلی کاپٹر کا ملبہ تک کسی کے ہاتھ لگنے نہیں دیتے چہ بسا 44 ارب ڈالر مالیت کے ڈرون کو صحیح و سالم ایرانی قوم کے حوالے کردیں۔ 2006ء میں حزب اللہ پر جارحیت سے قبل اسرائیلی فوج نے لبنانی فضا میں اپنے ڈرونز اور مخصوص جاسوس طیارے بجھوا دیئے تھے جن میں ایسے آلات نصب تھے جو ہر قسم کی برقی پیغام رسانی، مثلاً ریڈیو، موبائل، وائرلیس وغیرہ کو مکمل طور سے جام کر دیتے ہیں۔ لہٰذا جب اسرائیلیوں کو یقین ہوگیا کہ مختلف علاقوں میں موجود حزب اللہ کے جوانوں کا مواصلاتی رابطہ رابطہ منقطع ہو چکا ہے تو وہ دنداتے ہوئے لبنان میں داخل ہو گئے۔ لیکن اسرائیلی فوجی جہاں پہنچتے، حزب اللہ کے ہتھیار ان کا استقبال کرتے۔ یہ اس امر کی نشانی تھی کہ اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کے مواصلاتی نظام کو جام کرنے کی کوشش بار آور نہیں ہوسکی۔ صہیونی حکومت کی توقع کے برخلاف حزب اللہ کا مواصلاتی نظام بدستور کام کر رہا تھااور حزب اللہ کے جوان اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت پر بھی پوری طرح نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسی تلخ اور ناگوار حقیقت تھی جس نے نہ صرف صہیونی حکومت بلکہ امریکیوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اب حال ہی میں حال ہی میں بین الاقوامی میڈیا میں بڑی غیر یقینی کے ساتھ ایک خبر نشر کی گئی کہ اسرائیل نے ایک ایسے ڈرون کو مار گرایا ہے جسکے بارے میں یہ نہیں معلوم ہو پا رہا کہ کس کا ہے اور کہاں سے اڑا ہے۔ اس دوران اسرائیلی میڈیا یہ سوال اٹھا رہا تھا کہ ایک ڈرون طیارہ جس کی شناخت بھی نہیں معلوم کیسے اسرائیلی حدود میں داخل ہوا۔ صہیونی حکومت کے ماہرین کو بھی نہیں پتا چل پا رہا تھا کہ ڈرون کہاں سے آیا ہے اور کس کا ہے۔ تاہم صہیونی حکومت کی اس پریشانی کو، حزب اللہ کے قائد اور مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں یہ کہہ کر دور کردیا کہ اسرائیل نے جو ڈرون کچھ دن قبل مار گرایا ہے، وہ حزب اللہ کا تھا۔ سید حسن نصر اللہ کا یہ بیان اسرائیل کے ساتھ ساتھ پینٹا گون میں بھی بجلی بن کر گرا۔ سید حسن نصر اللہ نے یہ کہہ کر صہیونیوں اور امریکیوں کو مزید ہلاکر رکھ دیا جب انہوں نے یہ کہا کہ یہ ہمارے ڈرون کی نہ تو پہلی پرواز تھی نہ آخری۔ قائد استقامت سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ڈرون طیارے نے نہ صرف اسرائیلی حدود کو کامیابی سے پار کیا بلکہ سینکڑوں کلومیٹر اسرائیلی حدود میں پرواز کی اور اہم معلومات بھی ارسال کیں۔ قائد استقامت نے کہا کہ ایرانی ٹیکنالوجی کے حامل یہ ڈرون حزب اللہ کے ماہرین نے اپنی ضرورت کے مطابق ڈیزائن کیا ہے، جس نے اسرائیل کی سرحدوں کی حفاظت اور نگرانی پر مامور افراد اور ریڈارز کو چکما دیا اور اپنا مشن پورا کیا، تاہم صہیونی حکومت اپنی عوام سے جھوٹ بول رہی ہے کہ اس کو مشن کی انجام دہی سے پہلے ہی گرا دیا گیا۔ ابھی تو امریکی ڈرون اتارے ایران کو ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ حزب اللہ کا ڈرون طیارہ جدید ترین ریڈاروں کو دھوکہ دے کر اسرائیلی حدود کے اندر سینکڑوں کلومیٹر دور تک گیا اور ڈیمونا ایٹمی مرکز کے اوپر پرواز کی یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکی و اسرائیلی برتری ختم ہوچکی ہے۔ بیشک خدا پر توکّل، قوت ایمانی اور بابصیرت قیادت کے ذریعے کچھ بھی تسخیر کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیلی فضاء پر حزب اللہ کے جاسوسی طیاروں کی پروازوں کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے حزب الل
ہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ ہمارے ڈرون طیارے نے لبنان سے اسرائیلی ناقابل تسخیر بارڈر کو کراس کرکے سینکڑوں کلومیٹر دشمن کی سرزمین کے اندر جا کر دشمن کے علاقے کی مکمل چھان بین کی اور اہم معلومات ارسال کیں، انکا کہنا تھا کہ ہم نے اس آپریشن کا نام ایک شہید کے نام پر ایوب رکھا ہے اور ساتھ ہی حضرت ایوب (ع) کا نام بھی جو صبر اور برداشت اور استقامت کی علامت ہے، اس میں شامل حال ہے، حزب اللہ لبنان کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنی طاقت کا کچھ حصہ منظر عام پر لائے ہیں لیکن اس کا بڑا حصہ ابھی پوشیدہ ہے، جو کسی بھی وقت سرپرائز کے طور پر سامنے آئے گا، یہ ہم اسرائیل پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس گرائے گئے طیارے کو پرکھیں اور ہمارے پاس موجود ٹیکنالوجی کا اندازہ لگالیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن حزب اللہ کے جوانوں کی سائنسی ترقی اور پیشرفت کا ثبوت ہے جو اس طیارے کو لبنان سے کنٹرول کر رہے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کی ان فضائی خلاف ورزیوں کا جواب ہے جو وہ لبنان کی فضائی حدود کے خلاف ہمیشہ سے کرتا آیا ہے، ہم یہ حق محفوظ رکھتے ہیں کہ اس کا جواب دیں اور انشاءاللہ ہم آئندہ جب بھی، جہاں پر بھی چاہیں، اس طیارے کو بھیج دینگے، یہاں تک کہ یہ اسرائیل کے دور دراز جزائر تک پرواز کرے گا اور اسرائیلی جھنڈے کے اوپر سے گذرے گا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہم اپنے ان جوانوں کے شکر گذار ہیں، جو شب و روز اس قسم کے مشن پر محنت کر رہے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ کہا کہ ہمارے جوان لبنان کی داخلی صورتحال سے متاثر نہیں ہوتے وہ ملکی حالات کو خاطر میں لائے بغیر اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، سوچتے ہیں، پلاننگ کرتے ہیں اور دشمن پر نظر رکھتے ہیں۔ بلاشبہ اسرائیل کی فضائی حدود میں اور ڈیمونا ایٹمی مرکز تک حزب اللہ کے ڈرون کی کامیاب پرواز نے امریکی اور صہیونی حکام کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button