حکومت پاکستان اہل تشیع کی حب الوطنی کی قدر کرے
بلوچستان میں اہل تشیع مسلمانوں کو اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ پاک ایران تعلقات کو کشیدہ کیا جاسکے، اس وقت پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کی تکمیل تیزی سے جاری ہے اور امریکہ کو اس پر مروڑ اٹھ رہے ہیں اس لئے امریکہ نے اپنے گماشتوں کو ایسی کارروائیاں کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی حکومت کو اہل تشیع کی حب الوطنی کی قدر کرنا ہو گی جو استعمار اور پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کار نہیں بنے بلکہ پاکستان کی سالمیت کو اپنی جانوں پر ترجیح دی۔
چند دن قبل بلوچستان کے شہر مستونگ کے قریب مسلح افراد نے ایران جانیوالے زائرین کو بس سے اتار کر لائن میں کھڑے کر کے گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا، جس سے 29 افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح دہشت گردوں نے بعد ازاں لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال لے جانیوالی ایمبولینس پر بھی فائرنگ کی، جس سے مزید تین افراد شہید ہو گئے۔ فرقہ پرست دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ تنظیم قبل ازیں بھی کوئٹہ اور ملک کے دوسرے حصوں میں اہل تشیع مسلمانوں پر حملوں میں ملوث پائی گئی ہے۔
تین ہفتے قبل عیدالفطر پر کوئٹہ میں اہل تشیع کی ایک مسجد کے باہر خودکش دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی ایک گاڑی پھٹنے سے 11 شہری شہید ہو گئے تھے۔ ایک روز بعد کْرم ایجنسی میں ایک گاڑی پر گھات لگا کر فائرنگ کی گئی جس سے سات شیعہ مسلمان شہید ہوئے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کی رفتار اور شدت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ کراچی میں ایک پولیس افسر کی قیام گاہ پر حملے میں آٹھ افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جب کہ خیبر پختونخوا میں آئے روز دہشتگردی کے پے در پے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ قرائن سے مذہبی عسکریت کے عمومی رجحان اور ایک خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے میں سوچا سمجھا تعلق نظر آتا ہے۔ جس کے عوامل اور عواقب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی 15 سے 20 فیصد آبادی شیعہ اثنا عشری عقائد کی حامل ہے، جس نے پاکستانی معیشت، سیاست اور تمدن کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست اور مذہب کو خلط ملط کرنے کا ایک ناگزیر نتیجہ فرقہ واریت کی صورت میں برآمد ہوا۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والی تنظیمیں ناگزیر طور پر فرقہ وارانہ رجحانات کی حامل ہیں۔ عراق میں زرقاوی کی قیادت میں القاعدہ نے شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ 1996ء سے 2001ء تک افغانستان میں طالبان حکومت نے شیعہ آبادی کا ناطقہ بند کئے رکھا۔ کوئٹہ میں شیعہ عقائد کے حامل ہزارہ قبائل کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب ہے۔ بلوچستان میں طالبان اور ان کے حلیف گروہ، مسلکی اختلاف کی بنا پر ہزارہ قوم کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں جاری قوم پرست بدامنی کے باعث صوبائی حکومت کی عملداری مجروح ہوئی ہے چنانچہ فرقہ پرست عناصر کے لیے صوبے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکنہ طور پر آسان ہو گیا ہے۔ کچھ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ کوئٹہ میں طالبان شوریٰ کی مبینہ موجودگی میں مذہبی عسکریت پسند اس علاقے میں شیعہ افراد کی آبادی سے خائف ہیں اور انہیں ڈرا دھمکا کر علاقے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ شیعہ مخالف فرقہ وارانہ تنظیم لشکر جھنگوی کے طالبان اور القاعدہ کے ساتھ قریبی روابط ہیں کیونکہ افغانستان میں طالبان حکومت کے دوران فرقہ وارانہ قتل و غارت میں مطلوب بہت سے پاکستانی شہریوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی۔
یہ کم و بیش وہی صورتحال ہے جو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع کرم ایجنسی کو اپنے محل وقوع، جغرافیائی خدوخال اور آبادی کی فرقہ وارانہ شناخت کے ہاتھوں درپیش ہے۔ کْرم ایجنسی کے مغرب میں شمالی اور جنوبی وزیرستان القاعدہ اور طالبان کے گڑھ ہیں۔ جغرافیائی طو رپر کرم ایجنسی کا بالائی حصہ ایک نوکدار پٹی کی صورت میں افغانستان کے اندر تک جاتا ہے۔ یہ کٹا پھٹا پہاڑی علاقہ گوریلا دراندازی کے لئے نہایت موزوں سمجھا جاتا ہے۔
1980ء کی دہائی میں سوویت قبضے کے خلاف امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان کی ملی بھگت سے نام نہاد مجاہدین کی زیادہ تر دراندازی اسی علاقے سے ہوتی تھی۔ القاعدہ اور طالبان کرم ایجنسی پر قبضے کو اپنی حکمت عملی میں اہم مقام دیتے ہیں۔ اتفاق سے کرم کی آبادی کا غالب حصہ شیعہ اثنا عشری عقائد کا پیروکار ہے اور القاعدہ یا طالبان کے نصب العین سے ہمدردی نہیں رکھتا۔ چنانچہ 2004ء سے اس علاقے کی شیعہ آبادی پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں عملی طور پر پاکستانی ریاست کی عملداری نہ ہونے کے باعث ریاست اپنے شہریوں کا مؤثر تحفظ کرنے سے قاصر ہے۔
پاکستان میں عام طور پر دلیل دی جاتی ہے کہ خیبر پختونخوا، قبائلی علاقوں اور ملک کے دوسرے حصوں میں مذہبی دہشتگردوں کی کارروائیاں افغانستان میں اتحادی افواج کی موجودگی نیز پاکستانی ریاست کی طرف سے عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں شرکت کا ردعمل ہے۔ اس استدلال کے مخالفین کا مؤقف ہے کہ مذہبی عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں سیاسی عوامل، معاشی حقائق اور بین الاقوامی سیاست کی حرکیات سے ماورا ہیں۔ یہ گروہ قائم بالذات سیاسی فکر کے تابع ہیں اور ان کی سرگرمیاں کسی بیرونی عامل مثلاً پاکستانی حکومت یا مغر
ب کی پالیسیوں کا ردعمل نہیں۔ یہ لوگ دنیا پر اپنا تصور معاشرت اور سیاست مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس نصب العین کے لئے انہوں نے دہشت گردی کا لائحہ عمل اختیار کیا ہے۔ ان کی حکمت عملی بقائے باہمی کی بجائے تشدد کے ذریعے اپنا نکتہ نظر منوانا ہے۔ انہیں کسی مفاہمت یا سمجھوتے کی مدد سے تشدد ترک کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں ایک خاص مذہبی فرقے کیخلاف ان کی کارروائیوں سے اس نکتہ نظر کو تقویت ملتی ہے کیونکہ مذہبی سیاست حتمی تجزیے میں فرقہ واریت پر ختم ہوتی ہے۔
نوآبادیاتی اور فرسودہ تصورات کے زیر اثر ہمارے فیصلہ ساز ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ گروہوں کی سرپرستی کرتے ہوئے عسکریت پسندوں میں باہم تصادم کی فضا پیدا کی جائے۔ اس مفروضے میں یہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں گوریلا لڑائی کے اصولوں اور انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔ آج کی دنیا میں اگر ریاست دہشت پسندوں کے کسی گروہ کی سرپرستی کرتی ہے تو بالآخر یہ گروہ اپنے ہی سرپرستوں کیلئے خطرہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ اپنی سلامتی کے لئے سنجیدہ ریاست دہشت گردوں کے ساتھ مفاہمت کی بجائے سری لنکا، چین اور روس کی طرح دو ٹوک پالیسی اختیار کرتی ہیں۔
دوسری طرف مذہبی عسکریت پسندی کے مختلف دھڑوں کی ظاہری شناخت فرقہ وارانہ اختلاف ہو یا مسلح بغاوت، وہ فکری، تنظیمی اور حکمت عملی کی سطح پر گہری ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ چنانچہ مذہبی دہشت گردی کے خلاف سرگرم ریاست دہشت گردی کے مختلف رنگوں میں امتیاز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مناسب ترین حکمت عملی یہی ہے کہ جس طرح دہشت گرد ریاست کے خلاف یکسوئی سے فعال ہیں، ریاست کے تمام ادارے بھی اسی دوٹوک انداز میں دہشت گردی کے خلاف سیاسی عزم، عوام میں اتفاق رائے اور جامع عسکری حکمت عملی کے ساتھ برسرپیکار ہوں۔ صرف اسی صورت میں شیعہ مسلمانوں سمیت پاکستان کے تمام شہریوں کا کماحقہ تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
دوسری بات بلوچستان میں اہل تشیع مسلمانوں کو اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ پاک ایران تعلقات کو کشیدہ کیا جاسکے، اس وقت پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کی تکمیل تیزی سے جاری ہے اور امریکہ کو اس پر مروڑ اٹھ رہے ہیں اس لئے امریکہ نے اپنے گماشتوں کو ایسی کارروائیاں کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی حکومت کو اہل تشیع کی حب الوطنی کی قدر کرنا ہو گی جو استعمار اور پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کار نہیں بنے بلکہ پاکستان کی سالمیت کو اپنی جانوں پر ترجیح دی۔
تحریر:تصور حسین شہزاد