آج کی کربلا میں امریکی و محمدی (ص) اسلام کے مابین معرکہ ہے
محرم آ پہنچا اور سیدالشہداء (ع) کی فریاد ’’ھل من ناصر ینصرنا‘‘ زیادہ بلند آہنگ ہوکر گونج اٹھی۔ امام حسین (ع) کی نسلِ پاک سے آپ (ع) کے پیغام کے امین امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا تھا ’’ہر زمین کربلا ہے اور ہر روز عاشورہ ہے۔‘‘ حق و باطل کے مابین آویزش جاری ہے یہاں تک کہ مادی کائنات کا طومار لپیٹ دیا جائے اور باطنی کائنات کی جنت و جہنم آشکار ہوکر سامنے آجائے۔ کربلا قدم آگے بڑھا رہی ہے اور عاشورہ برپا ہے۔ اس سچ کو مختلف انداز سے بیان کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ حکیم الامت نے فرمایا تھا :
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی(ص) سے شرار بولہبی
نبی کریم (ص) نے امام حسین (ع) کے بارے میں فرمایا:
ان الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاۃ
یقیناً حسین (ع) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں،
گویا حسین (ع) ہی چراغ مصطفوی (ص) ہیں۔
61ھ کی کربلا میں امام حسین (ع) کا معرکہ یزید اور اموی جاہلیت کے خلاف تھا۔ ہر دور کی جاہلیت کو پہچان کر اس کے خلاف میدان کربلا میں اترنے کی ضرورت ہے، تاکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا جاسکے۔ یہی وہ کام ہے جو قیام حسینی کا نصب العین تھا۔
امام حسین (ع) نے ارشاد فرمایا:
انما خرجت لطلب الاصلاح فی امت جدی ارید ان آمر بالمعروف وانہی عن المنکر واسیر بسیرۃ جدی و ابی علی ابن ابی طالب۔
سوا اس کے نہیں کہ میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور میں اپنے نانا اور بابا علی ابن ابی طالب کی سیرت پر چل رہا ہوں۔
شاید بعض لوگوں کے خیال میں کربلا ’’مسلمانوں کے مابین‘‘ ایک معرکہ تھا۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ جھوٹ، مکر اور نفاق کے خلاف سچ اور حق کا قیام تھا۔ امام عالی مقام (ع) کے قیام سے یہ امر واشگاف ہوگیا کہ اس وقت دمشق میں قائم حکومت کا اسلام اور اسلام کی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ (ع) نے واشگاف فرمایا:
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ حق کو پامال کیا جا رہا ہے۔
آپ (ع) نے بیت المال میں ناجائز تصرف پر اعتراض کیا۔ آپ (ع) نے یزید کے فسق وفجور کو ہدف تنقید بنایا۔ آپ (ع) نے سنتِ رسول (ص کی پامالی کا شکوہ کیا۔ آپ(ع) نے بے جرم و خطا انسانوں کے قتل پر اظہار رنج و غم کیا اور فرمایا کہ ’’مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔‘‘
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
اشقیاء نے مجھے دو چیزوں میں سے ایک کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا ہے، یا یہ کہ میں یزید کی بیعت کروں یا پھر موت کے لیے تیار ہو جاؤں۔
اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا:
ھیہات منا الذلۃ
ہمیں ذلت قبول نہیں۔
یہ کہہ کر آپ (ع) نے یزید کی بیعت کو ذلت قرار دے دیا۔
بزبان شعر:
کہنے لگے حسین (ع) کہ اے ربّ دَوسرا
دَوراہے پر ہے ظالموں نے لا کھڑا کیا
ذلت کروں قبول یا پھر سرخ رُو قضا
لیکن ترے حسین (ع) کا بس اِک ہے فیصلہ
بیعت کا ہاتھ دوں گا نہ ہرگز یزید کو
تیری گواہی دینا ہے تیرے شہید کو
گویا امام حسین (ع) کے قیام کا مقصد۔۔۔
منافقت کے چہرے پر سے پردہ ہٹانا تھا۔ آپ عدل الٰہی کی حکومت کے پرچم بردار تھے۔ آپ کرپشن، اقربا پروری اور لوگوں کی امانت میں خیانت کے خلاف اٹھے تھے۔ آپ نے دھونس اور دھاندلی کو مسترد کر دیا اور حق کی ترجمانی و پاسداری کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہوگئے۔ آپ(ع) کی اسی کیفیت اور موقف کو اس مشہور شعر میں بیان کیا گیا ہے:
ان کان دین محمد لم یستقم
الا بقتلی فیا سیوف خذینی
اگر دین محمد (ص) کا استحکام میرے قتل کے بغیر ممکن نہیں، تو اے تلوارو آؤ مجھ پر ٹوٹ پڑو۔
یزید جو اپنے آپ کو خلیفۃ الرسول اور امیرالمومنین کہلاتا تھا امام حسین (ع) بیعت کی صورت میں اس کی تائید کر دیتے تو دین کی حقیقت ضائع ہو جاتی۔ دینی اقدار مٹ جاتیں اور یزید خصلت لوگ اسلام کے راہنما اور پیشوا قرار پاتے۔
آج بھی دنیا کو معرکہ کربلا درپیش ہے۔ یہ معرکہ امریکی اسلام اور محمدی (ص) اسلام کے مابین ہے۔ امام حسین (ع) محمدی (ص) اسلام ہی کے نگہبان تھے۔ آج کا طاغوت سرمایہ داری نظام ہے اور وہ امریکی مقتدرہ کی طاقت کے بل بوتے پر عالمی سلطنت قائم کرنے کے درپے ہے۔ اس کے اس ارمان کے راستے میں آج بھی ’’محمدی(ص) اسلام‘‘ حائل ہے۔ جو شخص آج کے محمدی (ص) اسلام اور امریکی اسلام میں فرق نہیں کر پائے گا، وہ قافلۂ حسینیت سے پیچھے رہ جائے گا۔
زیادہ دقتِ نظر کی ضرورت نہیں اور نہ کسی فلسفی دانش کی نیاز ہے۔ سادہ دلی اور خلوص نیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ جن ’’مسلمان راہنماؤں‘‘ سے خوش ہے، جن کی سرپرستی کر رہا ہے اور اسلام کے جس برانڈ کی تائید کرتا ہے، وہی امریکی اسلام ہے اور امریکہ جن مسلمانوں سے اور اسلام کی جس تعبیر سے نالاں ہے ’’محمدی (ص) اسلام‘‘ کو وہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج امریکی افواج عالم اسلام میں کہاں کہاں موجود ہیں، وہ کس کی حفاظت کر رہی ہیں اور کس کے خلاف برسرپیکار ہیں، یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔