کوئٹہ میں عظمت شہداء کانفرنس میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل ناصر عباس جعفری کا ٓ خطاب ،
وہ قوم جو فرعونیت کے ظلم کی چکی میں پس رہی تھی۔ ان کے بچے ذبح ہو رہے تھے ، ان بچوں کو دفن کیا جا رہا تھا ، انہیں تہ تیغ کیا جا رہا تھا،جنہیں ذلیل کیاجا رہا تھا ، جنہیں حقیر کیا جا رہا تھا ،جن پر فرعونیت کے گہرے تاریک سائے چھائے ہوئے تھے،وہ فرعونیت کے جہنم میں جل رہے تھے ، اپنی اس مظلوم قوم سے حضرت موسی ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میری قوم ، اللہ سے مدد مانگو اللہ سے قریب ہو جائو اللہ پر توکل کرو اور ثابت قد م رہو۔
ہمت نہ ہارنا، حوصلہ نہ ہارنا ، نا امید نہ ہونا ،استقامت کرو ثابت قد م رہو، یہ ظلمت کے سائے ہمیشہ کے لیے نہیں ہیں ، یہ ظلم ہمیشہ نہیں رہے گا ، یہ زمین اللہ کی ملکیت ہے ، خدا س کا مالک ہے ، مستقبل آپ کا ہے لیکن ایک شرط ہے کہ اپنے آپ کو متقی بنائو،ثابت قدم بنائو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ دوستو پاکستان کی سرزمین پر بھی اہلبیت کے ماننے والے فرعونیت اور یزیدیت کے گیرے میں آئے ہوئے ہیں، ہر طرف ظلم و ستم ہے ، یہاں ظالم ہیں ، قاتل ہیں ، یا قاتلوں کے پشت پناہ ہیں ،۔اے علی کے ماننے والو، اے حسین کے ماننے والو ، اے حسین کی صدائے استغاثہ پر لبیک یا حسین کہنے والو، مایوس نہ ہونا ہمت نہ ہارنا ، یہ یزیدیت کے پیروکار مٹنے والے ہیں ، مٹ کر رہیں گے، لبیک یا حسین کی صدا پوری دنیا میں بلند ہوتی رہے گی(حاضرین کا لبیک یا حسین کا نعرہ) ۔اس طرح لبیک یا حسین کہو کہ میرا مولا کربلا میں اس صدا کو سنے ، انہیںمعلوم ہو کہ یزیدوں کے مقابلے میں مظلوم اٹھے ہوئے ہیں اور انہوں نے تاریخ کا رخ موڑنا ہے ، انہوں نے یزیدوں کے چہروں سے نقاب اتارے ہیں، ان کے کرتوتوں سے پردہ اٹھایا ہے لیکن شرط کیا ہے اللہ سے مدد مانگو ، ثابت قدم رہو ، میدان میں ڈٹے رہو، پیچھے نہ ہٹو،دشمن تمہیں کمزور سمجھ رہا ہے ، ناتواں سمجھ رہا ہے ، بے بس سمجھ رہا ہے ، دوستوظلوم ہونا عیب نہیں ہے ، لیکن ظلم پذیر ہونا ذلت ہے، عیب ہے اور خدا کی نگاہ میں کفر ہے، یہ کوئی تقدیر کا فیصلہ نہیں ہے کہ ہمیشہ شمروں کے ہاتھ میں خنجر ہوں اور حسینیو ں کے سینے ہوں گے ، نہیں، منظم ہو جائو ، متحد ہو جائو، اکٹھے ہو جائو ، بیدار ہو جائو، تم شمروں کے ہاتھوں سے خنجر چھین کر ان کے سینوں میں گھونپ سکتے ہو ، یہ کوئی بڑے سورما نہیں ہیں ، بہادر نہیں ہیں ، ہم بہادر ہیں ،اگر ہم بہادر نہ ہوتے تو تاریخ میںکبھی مظلوموں کا نام نہ ملتا ، ہم شجاع ہیں ہم نے کبھی کسی پر چھپ کر وار نہیں کیا ، ہم کرار کے ماننے والے ہیں کسی فرار کے ماننے والے نہیں ہیں ، ہم مظلوم ضرور ہیں ہمارے سر کٹے ہیںلیکن جھکے نہیں،پھر بھی نیزوں پر بلند ہوئے ہیں ، دوستو اسرائیل ناقابل شکست تھا ، ساری دنیا مل کر اس کو شکست نہیں دے سکی،چند گھنٹوں میں شکست کھا گیا ،دوستو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس زمانے کے خیبر کو علی ماننے والوں کے علاوہ کوئی اور فتح کر سکے ، کل کا خیبر بھی کرار نے فتح کیا تھا اور آ ج کا خیبر بھی اسی کرار کے ماننے والوں نے فتح کیا ہے، جب ظلم و استبداد بڑھا ، فرعونیت کے اندھیروں نے ہر طرف کو گھیر لیا ، جب کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا ، انہوں نے کہا کہ اس کا مقابلہ کرنا ہے ، ہم تو حسین کے ماننے والے ہیں جس نے درس دیا ہے کہ خون کے آخری قطرے تک یزیدیت کے سامنے ڈٹے رہنا ، سر کٹا دینا لیکن میداں خالی نہ چھوڑنا، محاصرے میں بھی ہمت نہ ہارنا، عراق ہمارے صدر کی طاقت ختم نہ کر سکا ، طاقت کی قلت ہمیں کمزور نہ کر سکی ،دشمن کی کثرت ہمیں نہ ڈرا سکی، ہر قسم کا محاصرہ ظلم و ستم ہمیں مضطرب نہ کر سکے، بہنیں بھی ساتھ ہیں ، بیٹیان بھی ساتھ ہیں ، ناموس بھی ساتھ ہے ، بچے بھی ساتھ ہیں، لیکن ظلم سے ڈرنا نہیں ہے ۔ہم سب حسینی ہیں ، ہر روز یوم عاشورہ ہے، ہر جگہ کربلا ہے تو آج کی کربلا میں یزیدیوں کے مقابلے میں کہاں ہیں حسینی ؟ اٹھ کھڑے ہوئے ، پہلے پانچ دوسرے دن پچاس تھے اور پھر ڈیڑھ سو ہوئے ، یہ سب کہاں چلے تھے اس عصر کے یزید کو شکست دینے ، اس عصر کے فرعوں کو خاک میں ملانے ، سید کی عمر بائیس سال تھی ،حماد مغنیہ کی عمر بیس یا انیس سال ،اکثر اتنی عمروں کے لوگ تھے۔ یہ سب جمع ہوئے کس کے لیے ، امریکہ کو ، فرانس کو ، اسرائیل کو، برطانیہ کو،یعنی دنیا کے سب طاغوتوں کو شکست دینے کے لیے ، ان کی انا خاک میں ملانے کے لیے ، ایک سو پچاس حسینی اٹھے ۔ لبیک یا حسین کہتے ہوئے آئے اور ثابت کر دیا کہ یزیدیوں کو شکست دی جا سکتی ہے ، کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے ،جو مرحبوں انتروں کے مقابلے میں ہوں، عمروابن عبد ودوں کے مقابلے میں ہوں، اپنے امام کو بلائیں اور امام اس کی نصرت کو نہ آئیں،ہم امام رکھتے ہیں ۔ دوستو منظم ہونے کی ضرورت ہے ، بیدار ہونے کی ضرورت ہے ، اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے ، صحیح تربیت کی ضرورت ہے ، یہ فتنہ ہے پاکستان میں فتنہ طالبان کس نے بنائے ہیں ، القاعدہ کس نے بنائی تھی ، امریکہ نے ، یہ دہشت گردوں کو کون استعمال کرتا ہے ، امریکہ ،جب ملک اسحاق پکڑا گیا ملتان میں ، تو الیاس بلوچ نامی آدمی جو امریکی ایمبیسی اسلام آباد میں ہوتا تھا، اس کے ساتھ اس کا تعلق تھا ، اس کے پاس لمیٹڈ کریڈٹ کارڈ تھے ،اور جب اس کا یہ کیس فاش ہوا تو اس کو امریکہ بھیج دیا گیا، امام خمینی نے صحیح کہا ہے کہ امریکہ شیطان بزرگ ہے، سب سے بڑا شیطان امریکہ ہے ، اور اگر ہم اس شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کریں گے، امریکہ یہ چاہتا ہے کہ آپ میں اختلاف ڈالے تاکہ آپ
کمزور ہو جائیںہم کیا اس صورت میں امریکہ کا مقابلہ کر سکیں گے ، آپ یقین کر لیں کہ اگر ہمارے درمیان یہ تفاوت نہ ہو ، تفرقہ نہ ہو تو اپنی تمام صلاحیتوں کو درست استعمال کرنے کے بعد ہم آسانی کے ساتھ امریکہ فتح کر سکتے ہیں ، ہم مظلوم ہیں ظالم نہیں ہیں ، ہم نے تھوڑی سی کوشش کی پاکستان میں زلزلہ آگیا، اگر ہم اور کوشش کریں گے تو ہمارے شہدا کا خون ان ظالموں کو بے نقاب کر دے گا ، ہمیں اپنی مظلومیت کی فریاد کو بلند کرنا ہے ، خاموش نہیں رہنا ، شہدا کے خون کی پاسداری کرنی ہے ، اپنے آپ کو ایک اہل وارث ثابت کرنا ہے، کربلا کے بہتر شہید تھے ، ان کے خون کی وارث کون تھی ، علی کی شیر دل بیٹی ،جس نے بہتر شہدا کے خون کی پرورش کی ، پاسداری کی ، زمان و مکان کا قیدی نہیں بننے دیا اوریزیدیوں کو شکست فاش دی ، ایران میں شہدا کے خون کا وارث کون تھا خمینی بت شکن ،وہ انقلاب لایا ، لبنان میں شہدا کے خو ن کی وارث کون تھی ، حزب اللہ ، اسرائیل کو شکست دے دی ، پاکستان میں ہمارے شہیدوں کی تعداد لبنان کے شہیدوں سے زیادہ ہے، پاکیزہ تریں خون ہے شہید عارف حسین کا ۔ جس نے چالیس سال کی عمر میں اپنے سینے میں گولی کھائی اور اپنے مولا حسین کے کاروان میں شامل ہوا ، یہ کہنا کہ ہم شیعہ ہیں اس لیے سر کٹاتے رہیں گے، نہیں ہم نے یزیدوں کے سر کاٹنے بھی ہیں ، مجھے بتلائو، کربلا کا کوئی ایک بھی شہید بتائو جو یزیدی کا سر کاٹے بغیر شہید ہوا ہو، کربلا میں امام حسین نے سر کٹایا ہے، کئی یزیدیوں کے سر کاٹنے کے بعد ، علی اکبر نے سر کٹایا ہے سر کاٹنے کے بعد ،عباس نے سر کٹایا ہے ، سر کاٹنے کے بعد ، جوانوں بتائو کہ کیا ہم لڑ نہیں سکتے ، کیا ہم نے کربلا سے سبق سیکھا ہے ، کربلا کا یہ سبق ہے ، کہ تیاری کرو تیاری،آمادہ کرو اپنے آپ کو ، کربلا میں بد ترین حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر کے آئے تھے ، بچے بھی تیار تھے ، خواتین بھی تیار تھیں ، جوان اور بوڑھے بھی تیار تھے ،کیا ہم نے تیاری کر لی ہے ، تیاری کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے تفرقہ کی فضا کو ختم کر دو ، اختلاف ختم کر دو ، اتحاد کرو ، منظم ہو جائو، متحد ہو جائوم اکٹھے ہو جائو ، میدان کربلا میں شہزادہ قاسم نے کہا تھا کہ مجھے پہچانو میں علی کا پوتا ہوں ، ہم کہہ رہے ہیں ، یزیدیو ہمیں پہچانو ہم علی کے شیعہ ہیں ، حسین کے عزادار ہیں اور کربلائی ہیں، ہم نے حسین سے درس لیا ہے کہ خون کے آخری قطرے تک یزیدوں کے مقابل رہنا ، سر کٹا دینا لیکن جھکانا نہیں، ہم کربلائی ہیں ، یہ کس کا طریقہ ہے کربلا کا ، جوانوں کو بھی بتا ددو ، لبنا ن کی جنگ میں جوان لڑے ہیں ، ایران عراق جنگ میں جوان لڑے ہیں ،
کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے ، کربلا تخت کو تلووں سے مسل سکتی ہے
کربلا آگ تو کیا خار پہ چل سکتی ہے، کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا ، کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا
اپنے عقیدے سے نہیں ہٹنا ہے ،ہم ولایت کے پیرو کا ہیں ، ولایت ایک کامل نظام ہے ،کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ امام سیکولر تھے ، ہمار آئمہ سیکو لر تھے ، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ نعوذوبا للہ من ذالک کیمونسٹ تھے ،آج ہم پنجابی ہیں ، سندھی ہیں ، بلوچ ہیں ، ہزارہ ہیں دشمن میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ ولایت کے پیروکار شیعوں کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے، ہمیں فخر ہے کہ ہم علی کے شیعہ ہیں ، ہم ولایت کے پیروکار ہیں ، ہم علی ولی اللہ کہہ کر اعلان کرتے ہیں کہ ہم کیمونزم کے باغی ہیں سوشلزم کے باغی ہیں، ہم نے انسانیت کو نجات دلانی ہے ان بے ضمیروں سے ، ان خائینوں سے ، ان چورو ں سے ان بد معاشوں سے ، ان ایمان فروشوں سے، ان کو حق نہیں ہے کہ ہم پر حکومت کریں ، ہم کسی پارٹی سے نہیں ہیں، اگر ہماری کوئی پارٹی ہے تو اہلبیت کی پارٹی ہے ، ہماری کوئی اور پارٹی نہیں ہے ، ہم کسی زرداری کے نہیں ہیں ، کسی نواز شریف کے نہیں ہیں ، کسی عمران خان کے نہیں ہیں ، ہم ہیں تو علی کے ہیں اور فقط علی کے رہیں گے ،۔ہمیں تو ایسے تقسیم کیا گیا جیسے قربانی کے گوشت کو تقسیم کیا جاتا ہے ، کوئی زرداری لے جاتا ہے ، کوئی نواز شریف لے جاتا ہے ، کوئی اور تو کوئی اورلے جاتا ہے، دوستو ہوش میں آئو ، بیدار ہو جائے، ہمارا ووٹ ہماری رائے پاکستان کے لیے ہے، مظلوموں کے لیے ہے، ظالموں کے لیے نہیں ہے ، ظالموں کو سرنگوں کرنے کے لیے ہے ۔ مجلس وحدت مسلمین کا تیسرا سال ہے اس میں وہ لوگ جمع ہیں جو کسی زمانے میں شہید عارف حسینی کے ساتھ تھے ، وہ پرچم جو ہمارے دشمن نے ہمارے قائد کو شہید کر کے گرانے کی کوشش کی تھی اسے لبیک یا حسین کہہ کر اس کربلا میں پھر گاڑنا ہے ، انشا اللہ پوری دنیا میں ہم مظلوموں کا ساتھ دیں گے ، مظلوموں کی صدا بلند کرتے رہیں گے اور جب تلک اپنا حق حاصل نہ کر لیں چین سے نہیں بیٹھیں گے، ہم وہ ہیں جنہوں نے امام حسین کے استغاثہ پر لبیک کہی تھی ، امام نے کہا تھا ہیہات منا الزلة ذلت ہم سے دور ہے اور ہم نے جواب میں کہا تھا لبیک یا حسین