بلوچستان میں دہشت گردی اور انڈین کنکشن
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)دہشت گردوں نے لورا لائی بلوچستان میں ایف سی ٹریننگ سینٹر کے رہائشی اور انتظامی کمپاؤنڈ پر حملے کی کوشش کی جس میں خود کش بمبار سمیت چار دہشتگرد مارے گئے، فائرنگ کے تبادلے میں چار اہلکار شہید اور 2 زخمی ہوئے، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ایف سی ٹریننگ سینٹر لورالائی میں دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ اپنے ایک بیان میں وزیر اعلیٰ نے حملہ آور دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے ہوئے انھیں ان کے انجام تک پہنچانے پر سیکیورٹی اداروں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں نے ایف سی ٹریننگ سینٹر کے رہائشی کمپاؤنڈ میں داخلے کی کوشش کی تھی تاہم انٹری پوائنٹ پر چوکس سیکیورٹی نے بروقت ایکشن لیتے ہوئے دہشتگردوں کو روکا جس سے وہ اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پائے، سیکیورٹی فورسز کے بر وقت ایکشن سے دہشتگردوں کو چیک پوسٹ کے کمپاؤنڈ میں روک کر سیکیورٹی فورسز نے رہائشی علاقے کو بچا لیا ورنہ زیادہ جانیں ضایع ہو جاتیں۔ فائرنگ کے تبادلے میں4دہشتگرد ہلاک ہوئے ان میں سے ایک خود کش بمبار نے آپریشن کی کلیئرنس کے آخر میں خود کو دھماکے سے اڑایا، چیک پوسٹ پر ابتدائی حملے میں فائرنگ سے چار اہلکار شہید اور دو زخمی ہوگئے،شہید ہونے والوں میں صوبیدار میجر منور، حوالدار اقبال خان ، حوالدار بلال اور سپاہی نقاش شامل ہیں۔
عجیب بات ہے کہ افغانستان میں تزویراتی گہرائی اور مکمل اثرونفوذ حاصل کرنے کے بعد بلوچستان میں دہشتگردی کی کسی بھی واردات میں بھارتی مداخلت یا اس کی تخریب کارانہ سازش کی ایک نہ ایک کڑی پاک سیکیورٹی حکام اور سیاسی مبصرین کو ضرور خبردار کرتی ہے، اس بار بھی لورالائی کے واقعے کے ساتھ ہی بھارتی وزیراعظم نے گیدڑ بھبکی دیتے ہوئے کہا ہے یہ سوچنا بڑی غلطی ہوگی پاکستان ایک لڑائی سے سدھر جائے گا، ایک خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ حالات سازگار ہوئے تو پاکستان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر بندوق اور بم کے شور میں گفتگو نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور دوسری سانس میں مذاکرات کے لیے تیاری کا عندیہ، مگر وہ یہ الزام لگاتے ہوئے بھی سنے گئے کہ آج پاکستان دہشتگردی کی حمایت کی وجہ سے دنیا میں تنہا ہے۔
نریندر مودی فرضی یا افسانوی سرجیکل اسٹرائیک کا ذکرکرتے ہوئے یہ داستاں سرائی بھی کرتے ہیں کہ اسٹرائیک کا فیصلہ بڑا خطرہ تھا لیکن مجھے سیاسی خطرے کی نہیں،ان جوانوں کی جان کی فکر تھی جو آپریشن میں حصہ لے رہے تھے، مودی نے کہا پاکستان کی طرف سے اسٹرائیک کا انکار کرنا ضروری تھا لیکن ملک میں بھی کچھ لوگ وہی بات کر رہے تھے جو پاکستان کہہ رہا تھا اور یہ افسوس ناک تھا۔ مودی نے یاد دلایا کہ 1965 میں بھی لڑائی ہوئی، تقسیم کے وقت بھی ہوئی ،ایک لڑائی سے پاکستان سدھر جائے گا،یہ سوچنا بہت بڑی غلطی ہوگی ۔
مودی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے سارک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت آتی ہے تو یہ پل اسی وقت پار کیا جائے گا، ہم ہر موضوع پر غیر مشروط بات کرنے کے لیے تیار ہیں ، لیکن بس ہمارا کہنا یہ ہے بم بندوق کی آواز میں بات چیت سنائی نہیں دیتی حالانکہ بندوق کی آوازیں تو مقبوضہ جموں و کشمیر میں سنائی دیتی ہیں وہاں کیا مودی سرکار کشمیری قیادت سے مکالمات افلاطون میں مصروف ہے۔اتنی بات تو دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے پاکستان سے بات چیت کے لیے دو مصنوعی چہرے بنا رکھے ہیں، اور سفارت کاری کا پورا منورنجن محض عالمی طاقتوں کو دھوکا دینے کے لیے ہے۔
لہٰذا یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بھارتی گیدڑ بھبکی یکسر مستردکردی ہے، ترجمان دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا بھارت میں انتخابات ہیں اور یہ سیاسی قیادت کا سیاسی حربہ ہے، پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی،اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مودی حکومت کو خط بھی لکھا، ایسے بیانات سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ پاکستان کی طرف سے صائب رائے دی گئی ہے مگر بلوچستان میں وقفہ وقفہ سے دہشتگردی کے تانے بانے مودی حکومت کے گرینڈ پلان کا حصہ ہی ہے۔
اس لیے بلوچستان حکومت داخلی امن اور دہشتگردی کے سدباب کے لیے سیکیورٹی میکانزم اور امن کی اسٹرٹیجی کو یقینی بنانے کے لیے بیرونی قوتوں اور دشمنوں سے ہمہ وقت نمٹنے کی ضرورت ہے، جب کہ داخلی امن وترقی کے لیے سماجی، معاشی مسائل کے حل پر بھی توجہ ناگزیر ہے، بلوچستان میں سب ٹھیک نہیں ہے، سیاسی اختلافات، جماعتی کشمکش و کرپشن کے انسداد اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے علاوہ انتظامی شفافیت اور سی پیک منصوبوںکا مثبت روڈ میپ بلوچستان کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے، دشمن داخلی بے چینی سے کسی بھی وقت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔بالخصوص بھارتی لابی اور بے چہرہ ایجنٹوں سے خبردار رہنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)