مضامین

وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
ہمیں کشمیر نہیں چاہیئے، ہمیں ڈالر و ریال چاہیئں، ہمیں افغانستان میں ابھرتی ہوئی داعش اور امڈتے ہوئے طالبان سے بھی کوئی غرض نہیں، ہمارا ہندوستان سے بھی کوئی جھگڑا نہیں، چھوٹی موٹی جھڑپیں تو گھروں میں بھی ہوتی رہتی ہیں، ہم نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق اور عبرت حاصل نہیں کرنی، اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو پھر ڈالر و ریال کو ہی حاصل کرنا ہے، چاہے جس قیمت پر بھی ملیں۔ آخر ملک کو بھی تو چلانا ہے، ملک اسمبلیوں، سیاستدانوں اور معدنی ذخائر سے تھوڑا چلتا ہے، ملک تو قرضوں اور بیرونی امداد سے چلتا ہے، ملک چلے نہ چلے اسی بہانے کئی لوگوں کا چولھا جلتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ملک چلانے اور بچانے  کے چکر میں ہم اپنے ملک کا ایک حصہ بنگلہ دیش کی صورت میں پہلے ہی کھو چکے ہیں، دوسرے حصے کو کشمیر کی شکل میں اپنے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھ رہے ہیں، جو بچ گیا ہے اس کے بارے میں ہم نے کافی کوشش کی ہے کہ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، سپاہ محمد اور اس جیسی کئی تنظیمیں اور لشکر بنا کر اس ملک کو شیعوں اور سنیوں میں تقسیم کر دیں، لیکن ہماری ان تھک کوششوں کے باوجود یہ باقی ماندہ ملک ابھی تک قائم ہے۔

اس باقی ماندہ ملک کے باسیوں کے ساتھ ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے اور ملک کے باہر ان پر کیا بیت رہی ہے، اس کا اندازہ آپ ان دو سطروں سے لگا لیجئے کہ جو ملک کے اندر بستے ہیں، اگر وہ مہنگائی، بیماری، بے روزگاری اور خودکش حملوں سے بچ جائیں تو سانحہ ساہیوال جیسے سانحات کا نوالہ بن جاتے ہیں اور اگر ملک سے باہر بستے ہیں تو ان کی ایک مثال ایران میں بسنے والے پاکستانی ہیں، جنہیں گذشتہ چھ ماہ سے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی پاسپورٹ بنا کر نہیں دے رہی۔ چھ ماہ سے لوگ بیچارے  مسلسل صبح و شام بلاناغہ بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں، سو بجاتے رہیں، کسی کو ان سے کیا غرض۔ ہمیں تو ڈالروں اور ریالوں سے غرض ہے اور ہماری غرض کو پورا کرنے کے لئے عنقریب ہمارے ملک میں تشریف لا رہے ہیں، عزت ماب، ظل الہیٰ، جہاں پناہ، شہزادہ محمد بن سلمان۔ وہ آئیں گے تو ہمیں ڈھیروں ریال اور ڈالر دے کر جائیں گے، البتہ اس کے بدلے میں وہ ہم سے کیا لے کر جائیں گے، اس کے بارے میں فی الحال سوچنا بھی ممنوع ہے، چونکہ پہلے ہی ایک امریکی سینیٹر نے کہا تھا کہ پاکستانی چند ڈالروں کے عوض اپنی ماں تک کو فروخت کرسکتے ہیں۔

اب پاکستان تشریف لانے والے شہزادے کو تھوڑا سا پہچانیئے، تاکہ آپ کو کچھ نہ کچھ  اندازہ ہو جائے کہ آنے والا جو رقم دے گا، اس کے بدلے میں ہم سے کیا کچھ لے کر جائے گا۔ ویسے آپ کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ مثال کے طور پر سعودی عرب اگر چاہے تو ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف (راحیل شریف) تک کو لے جا سکتا ہے، اب باقی قومی معاملات اور ملکی سلامتی پر ہم سعودی عرب کے ساتھ کس حد تک سمجھوتہ کرسکتے ہیں، اس کا اندازہ آپ اسی سے لگا لیجئے۔ اصل میں ڈالر اور ریال میں چمک دمک بھی کچھ زیادہ ہی ہے، اسی لئے ہم ان کے سامنے کسی طرح کی حدود و قیود کے قائل نہیں ہیں۔ ممکن ہے کسی سر پھرے کے دماغ میں کوئی انکار والی بات گردش کر رہی ہو، اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ جو پیسے دیتا ہے اور منہ مانگے پیسے دیتا ہے، وہ انکار نہیں کرنے دیتا، ہم نے یمن کے مسئلے پر فوج بھیجنے سے انکار کیا تھا تو اس کی سزا میاں نواز شریف کو ریاض کانفرنس میں ذلیل کرکے دی گئی تھی اور بعد ازاں۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر انکار کا تو احتمال بھی نہیں، وہ جو مانگیں گے، ہمیں دینا پڑے گا، چونکہ مانگنے والا بڑا ضدی شہزادہ ہے۔ اس دورے کے دوران اربوں ڈالر کے معاہدے اور ”ایم او یوز“ پر دستخط ہونگے۔ انکار والی تو بات ہی ذہن سے نکال دیں، یمنی عوام نے انکار کیا تو اب وہاں ہر گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے مر رہا ہے، باقی فضائی حملوں سے مرنے والوں کو گنتا کون ہے! قطر نے انکار کیا تو ماہ رمضان میں اس کا محاصرہ کرکے اس کا دانہ پانی بند کر دیا، لبنان نے تھوڑا ہلنے کی کوشش کی تو لبنان کے وزیرِاعظم سعد الحریری کو ریاض طلب کرکے جبری استعفیٰ لے لیا اور بڑی مشکل سے  بے چارے کی جان بخشی ہوئی، سعودی شاہی خاندان میں جن شہزادوں  کے سر اٹھانے کا خطرہ تھا، ان سب کو کرپشن کے جرم میں پکڑ کر انہیں دیوالیہ بھی کیا اور ان سے زبردستی بیعت بھی لی، حتیٰ کہ اگر جمال خاشقجی جیسے ایک صحافی نے بھی نہ کی تو اسے ایسی سزا دی کہ ساری دنیا ششدر رہ گئی۔ ایک دوسرے ملک میں ایمبیسی کے اندر قتل کروا دینا، بلکہ برے طریقے سے قتل کروانا اور لاش کے ٹکڑے کروا دینا، یعنی ایسا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، جیسا یہ شہزادہ کر سکتا ہے۔

ہاں تو میرے ہم وطنو! اب شہزادہ تو آرہا ہے، بس موٹی موٹی باتیں ذہن میں رکھ لو! ہندوستان کے ساتھ شہزادے کے زبردست تعلقات ہیں، لہذا مسئلہ کشمیر کو ابھی سے مسئلہ کہنا ہی چھوڑ دو، آخر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے، تقسیم برصغیر سے پہلے ہم ایک ہی ملک تھے، ہمیں اب بھی اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا چاہیئے، البتہ لوگوں کا منہ بند رکھنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں اور حسبِ ضرورت بھاری اسلحے کے ساتھ گولہ باری جاری رہنی چاہیئے۔ مارے جائیں گے تو بارڈر کے دونوں طرف مقامی لوگ، اب اتنے ڈالروں کے عوض کچھ دیہاتی اور پسماندہ لوگ مارے بھی جائیں تو کونسی قیامت آجائے گی۔ دوسری طرف افغانستان ہے اور افغا
نستان میں طالبان ہیں، جب ہمیں پیسے دیئے جائیں گے تو طالبان کی خدمت کرنا بھی ہمارے فریضے میں شامل ہوگا اور ہم پہلے کی طرح طالبان کو پالیں گے اور ان سے آنکھ مچولی کھیلیں گے۔

ہاں اب رہ گیا ایران، تو ایران سے امریکہ بہادر اور سعودی شہزادے دونوں کی قطعاً نہیں بنتی، وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں، تو اب کشمیر کے بارڈر کے دونوں طرف بسنے والے کشمیریوں کی طرح پاکستان میں ایران کے ہم مسلک باشندوں کو بھی ایران کی گستاخیوں کا مزہ چکھنا پڑے گا، چاہے لاپتہ اور اغوا ہوں اور یا پھر پہلے کی طرح لشکر ٹولے اور سپاہیں منظم ہو کر قتل و غارت شروع کر دیں۔ ممکن ہے یہ شہزادہ  ایران کو مہار کرنے کے لئے اسرائیل کے بارے میں بھی کوئی سرگوشی کر جائے۔ آپ کو یاد ہو تو ہمارا ایک اور ہمسایہ بھی تو ہے، جسے چین کہتے ہیں، چین بھی امریکہ و سعودیہ دونوں کا اقتصادی رقیب ہے، آجکل بڑے ترقیاتی منصوبے بنا رہا ہے،  شہزادے کو چکر لگانے دیں، آہستہ آہستہ چین کو بھی دن میں تارے نظر آنے لگیں گے، طالبان بھائیوں کو تھوڑی مدد اور تقویت ملنے دیجئے، پھر جلد ہی چین جیسے کافر ملک کو اس کی اوقات یاد دلا دیں گے، احتمالِ قوی ہے کہ اگلے چند سالوں میں چین کے اندر کسی گوشے میں ہی جہادی تحریک شروع ہو جائے گی۔

اچھا اب ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے! اگر شہزادے کی آمد سے ہمارے ملکی و قومی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے تو بحیثیت پاکستانی ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے!؟ یہ ایک الٹا سا سوال ہے، جو الٹے دماغوں میں گھومتا ہے، صاف بات ہے کہ اب ہماری شکایات اور احتجاجات کی اوقات ردی کی ٹوکری سے زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں عوامی سوچ، تنظیمی رواداری، باہمی بھائی چارہ اور اجتماعی شعور اتنا ہے کہ ہم سب مل کر چھ ماہ سے اپنے پاسپورٹ تک نہیں بنوا سکتے، ہم کسی  ادارے سے اپنا قانونی حق تک نہیں لے سکتے۔ اس لئے کہ ہماری اکثریت سادہ دل اور سادہ لوح ہے، ہم چائے کی پیالی پی کر اپنے ملکی و قومی مفادات کو بھول جاتے ہیں، ہم فوٹو سیشن کے چکر میں ملک و قوم کی بات کرنے کے بجائے ملک و قوم کو خاموش رہنے کے بھاشن دیتے ہیں۔ ہم اپنے ملک اور قوم کے درد کو بیان کرنے کے بجائے درد کو چھپا کر رکھنے کے فضائل بیان کرتے ہیں۔ ہم ملت کے مسائل حل کرنے کے بجائے، اخبارات اور سوشل میڈیا میں اپنی تصاویر دکھا دکھا کر لوگوں کو اچھے دنوں کی لوریاں سناتے ہیں۔ ہمارے جیسے سادہ دلوں کو چھوڑیئے، ہمارا ذکر ہی کیا، ہماری سادگی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں ان حساس مسائل سے علیحدہ ہی رکھئے تو بہتر ہے۔

 ہاں الحمدللہ! ابھی ہمارے وطن میں کچھ لوگ باقی ہیں، جنہیں ملک سے محبت ہے، جو قوم کے درد کو محسوس کرتے ہیں، جو ملک کو غیروں کی لگائی ہوئی آگ میں جلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے، جو بھائی کو بھائی سے لڑتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے، جو ملک و قوم کی خاطر بولنے اور اٹھنے کو اپنا شرعی و دینی فریضہ سمجھتے ہیں، جن کے نزدیک سارے پاکستانی بھائی بھائی ہیں اور جو کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے ہیں، جن کے نزدیک اسرائیل ایک ناسور ہے، ظاہر ہے وہ محب وطن لوگ اس  سعودی شہزادے کی آمد پر حکومت کے سامنے اپنے خدشات و تحفظات بھی رکھیں گے اور اپنی آواز بلند کرکے اپنا فریضہ بھی ادا کرینگے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button