پاکستان پر جنگ مسلط، دوست ممالک کہاں ہیں؟
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) عرفان علی
پاکستان کے غیرت مند بیٹوں نے پائلٹ ستار علوی کے اس کارنامے کی یاد تازہ کر دی ہے، جو 1973ء کی اسرائیل عرب جنگ میں اسرائیلی طیارہ گرا کر رقم کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ اسرائیل کے اتحادی بھارت کی باری تھی کہ اس نے دراندازی کرکے پاکستان کو للکارا۔ آج جو ہوا، وہ پوری دنیا نے دن کی روشنی میں دیکھ لیا کہ گھس کر ماریں گے، صرف بھارتی فلموں میں ہی بولا جاسکتا ہے ، اسکو حقیقت کا روپ دینے کی صلاحیت سے بھارتی محروم ہیں۔ جہاں آج مسلح افواج نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا، وہیں سفارتی محاذ پر ہمیں بہت سوں کی بے وفائی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد اہلیان پاکستان اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ وہ غیر ملکی حکام جو انصافین حکومت کے دور میں اسلام آبادی حکمرانوں کی مہمان نوازیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے، ان میں سے کوئی بھی ہماری مدد کو آنے پر تیار نہیں۔ ماضی کی طرح ایک اور مرتبہ سارے اندازے اور تکے سراب ثابت ہوئے۔ یہاں جس نے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر ہے، وہ نئی دہلی میں مودی کا چھوٹا بھائی بن گیا اور وہاں اس خود ساختہ پاکستانی سفیر یعنی سعودی ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلق (رشتہ) اس کے ڈی این اے میں ہے۔ وہاں اس شہزادے نے مودی کی دل کھول کر تعریف کے پل باندھ دیئے۔ 54 نکاتی مشترکہ بیان میں اس نے مودی سرکار کے مفاد کا بھرپور خیال رکھا۔ مودی سرکار کے ساتھ مشترکہ بیان میں صراحت کے ساتھ سعودی پالیسی کو رسمی طور بیان کیا گیا:
To enhance further cooperation in the Counter-terrorism efforts and benefit mutually from real-time intelligence sharing, the two sides agreed to constitute a ‘Comprehensive Security Dialogue’ at the level of National Security Advisors and set up a Joint Working Group on Counter-Terrorism. The Prime Minister and His Royal Highness reiterated to continue the ongoing close cooperation on a range of security issues……..۔
اس دورے کے بعد نریندرا مودی کی ہمت بڑھی اور اس نے پاکستان پر دراندازی کر دی۔ کون مودی، وہی جسے سعودی عرب کے بادشاہ نے سعودیہ کا اعلیٰ ترین سرکاری اعزاز دیا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کو دہشت گرد کہتا ہے اور انکی مقاومت کو دہشت گردی قرار دیتا ہے اور ایم بی ایس کے دورہ بھارت پر مشترکہ بیان میں اس کا تذکرہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت اور سعودیہ نے دہشت گردوں اور دہشت گردی سے متعلق ایک دوسرے کی تشریح کو قبول کر لیا ہے۔ سعودی عرب جس نے پچھلے مالی سال میں بھارت کے ساتھ 27.48 بلین ڈالر مالیت کی دو طرفہ تجارت کی۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھارت کی تجارت اس سے کہیں زیادہ ہے اور سال 2020ء تک یہ دونوں ملک دو طرفہ تجارت کا حجم ایک سو بلین ڈالر کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پچھلے سال تقریباً پچاس بلین ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کا جو اجلاس ہو رہا ہے، اس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو انتہائی اہم خاص مہمان کے اعزاز کے ساتھ مدعو کیا گیا ہے۔ انہیں یہ دعوت متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید النھیان نے دی ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ ملک ہیں، جن کے گرم ترین پسماندہ صحرائی علاقوں کو جدید متمدن دنیا کا حصہ بنانے میں پاکستانیوں کا خون پسینہ خرچ ہوا ہے۔ ان کی ترقی میں پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ وہ شاہ زادے ہیں، جنہیں پاکستان میں ان پرندوں کا شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ انکا شکار پوری دنیا میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ انہیں پاکستان میں شاہی مہمان کی حیثیت سے ان کی اوقات سے بڑھ کر عزت دی جاتی ہے۔ ان کی آمد پر ملک کا وزیراعظم ایئرپورٹ جاکر اپنی گاڑی میں ڈرائیور بن کر ایوان وزیراعظم میں لاکر خاطر مدارات کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سے متحدہ عرب امارات کے النھیان خاندان کے لئے پاکستان نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خدمات انجام دی ہیں۔ حتیٰ کہ بھٹو یہ چاہتے تھے کہ یہ خلیجی ممالک برطانیہ و امریکا کی بجائے پاکستانی افواج سے ٹریننگ لیں۔ ان کی ایوی ایشن کی صنعت، ان کا دفاعی شعبہ، ان کی صحت کی سہولیات، کیا کیا پاکستانیوں نے نہیں کیا ان کے لئے! لیکن آج یہ پاکستان اور کشمیریوں کی مدد سے گریزاں ہیں۔
یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا، مغربی فوجی اتحاد نیٹو، برطانیہ، یورپی یونین، یہ سب بھارت کی دراندازی کی مذمت نہیں کر رہے۔ یہ وہی پاکستان ہے، جس نے بغداد پیکٹ یا سینٹو اور سیٹو کے پلیٹ فارم سے بھی اور سوویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد بھی اور حتیٰ کہ نائن الیون کے بعد بھی امریکا اور نیٹو ممالک، سعودی و اماراتی حکومتوں کی مدد کی۔ ان کی جنگوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان جنگوں اور اس کردار کا فال آؤٹ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے، لیکن امریکی وزیر خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ Following Indian counter-terrorism actions on February 26, I spoke with Indian Minister of External Affairs Swaraj to emphasize our close security partnership and shared goal of maintaining peace and security in the region. یعنی بھارت نے انسداد دہشت گردی کے لئے جو اقدامات کئے ہیں، اس پر امریکی وزیر خارجہ نے بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے بات کی ہے، جس میں انہوں نے امریکا و بھارت کے مابین قریبی شراکت داری برائے سکیورٹی اور خطے میں امن و سلامتی کے مشترکہ مقصد کا تذکرہ کیا ہے اور یہ کس قسم کی شراکت داری اور امن و سلامتی کا مشترکہ مقصد ہے کہ بھارت کی کارروائی کو انسداد دہشت گردی کے لئے اٹھایا گیا
قدم قرار دے رہے ہیں، جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو ڈکٹیشن دے رہے ہیں۔
I also spoke to Pakistani Foreign Minister Qureshi to underscore the priority of de-escalating current tensions by avoiding military action, and the urgency of Pakistan taking meaningful action against terrorist groups operating on its soil.یعنی امریکی وزیر خارجہ کا حکم ہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے کی گئی دراندازی کو برداشت کرلے، ردعمل نہ کرے۔ کیا اس طرح اس خطے میں امن نے قائم ہونا ہے کہ کشمیریوں کی لاشیں گرتی رہیں، بھارت کی قابض افواج و پولیس ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی رہیں، لیکن پاکستان اور پاکستانی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہیں؟! یہ ہے امریکا کا اصلی چہرہ! امریکا اور اسکے اتحادی پاکستان سے دوستی کا ڈھونگ رچاتے آئے ہیں، جبکہ اس مشکل وقت میں وہ پاکستان کی بجائے بھارت کی طرف واضح جھکاؤ رکھتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو موقف اختیار کیا ہے، اب اس پر قائم رہیں۔ اگر سشما سوراج کو او آئی سی کے اجلاس کی دعوت منسوخ نہیں ہوتی تو پاکستان کو نہ صرف اس اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے بلکہ ان عرب ممالک سمیت بھارت کے ہر دوست ملک سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہیئے، جو جتنا بھارت کو پاکستان پر ترجیح اور فوقیت دے رہا ہے، اس سے پاکستان کے تعلقات کی سطح اتنی ہی کم ہونی چاہیئے۔ کشمیری او آئی سی کی جانب سے کھوکھلی مذمت نہیں چاہتے بلکہ جنرل راحیل شریف جس سعودی فوجی اتحاد کے ملازم ہیں، اس کے ذریعے کشمیر پر جارحیت کرنے والی بھارتی افواج کی مرمت چاہتے ہیں۔
پاکستان کو بھارت کی سازشوں کا توڑ کرنے کے لئے موجودہ نام نہاد کھوکھلے دوستوں اور اتحادیوں کی جگہ ٹھوس اور مخلص دوست اور اتحادی بنانے چاہئیں۔ اے فرینڈ ان نیڈ، اے فرینڈ انڈیڈ والی صورتحال آچکی ہے۔ جو ضرورت کے وقت دوستی نہ نبھائے، اسے دوست کیسے مان لیں۔ او آئی سی ممالک اور عرب لیگ اور چین و امریکا سمیت ہر ملک سے صاف کہہ دیا جائے کہ بھارتی دراندازی کے خلاف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں یہ معاملہ اٹھایا جائے اور ساتھ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بات ہفتم کے تحت فوری اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان کے دوست ممالک سفارتی محاذ پر اگر کھل کر پاکستان کی مدد و حمایت کرنے میں ناکام رہیں تو پھر ہمیں بھی ایسے مفاد پرستوں سے جان چھڑانی چاہیئے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے بھارتی در اندازی کے خلاف ذمے دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ صحافی بھی اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں، لیکن سفارتی محاذ پر پاکستان کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو سیشن سے بڑھ کر کوئی ٹھوس کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے غیرت مند فرزندوں کا دنیا بھر کے لئے صرف ایک پیغام ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت کون پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور کون بھارت کی طرف سے بول رہا ہے۔ امریکا، سعودی و اماراتی حکام کی بھارت دوست مثلث بھی جان لے کہ پاکستان کے غیرت مند بیٹوں کے سامنے ان کی اصلیت ایک اور مرتبہ بے نقاب ہوچکی ہے۔ پاکستانی، مسلمان و عرب اور لاطینی امریکا کے عوام دیکھ لیں کہ نام نہاد سولائزڈ دنیا کی نظر میں انکی کوئی اہمیت نہیں۔ کشمیری، فلسطینی، یمنی، میانمار کے روہنگیا مسلمان، لاطینی امریکا کے سامراج مخالف عوام سمیت سبھی دنیا کی بڑی طاقتوں یا ان کے اتحادیوں اور پراکسیز کی جانب سے طاقت کے بے لگام اور ناجائز استعمال کی وجہ سے مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔