شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک عہد ساز شخصیت
تحریر: علی زین مہدی
تاریخ بشری میں حالات کے ہاتھوں مجبور و مقہور ہو کر رستہ بدل لینے والوں کی مثالیں تو ممکن ہے ہر کتاب تاریخ کے ورق ورق پہ کنندہ مل جائیں مگر!!! ایسا بہت کمیاب ملے گا کہ ایک بشر نے تاریخ کا دھارا پلٹتے ہوئے عہد ظلمت کو عہد انسانیت سے تبدیل کیا ہو۔ البتہ وطن عزیز کی تاریخ میں چند ایک ایسی شخصیات ضرور نظر آتی ہیں، جن کی بدولت ہم تا روز حشر سر اٹھا کر چلنے میں دقت محسوس نہ کریں گے۔ ایسی ہی بے مثل و بے نظیر شخصیات میں سے ایک شخصیت جو اصلاب شامخہ و ارحام مطاہرہ میں پروان چڑھتے ہوئے بطن بنت مصطفیٰ سے اس دھرتی ماں پہ قدم رکھتا ہے، عظیم اسلاف کے مالک پدر شفقت و مہر و محبت کے ساتھ اسکا نام اپنے جد کے نام پہ رکھتے ہیں، کیونکہ وہ شاید لاشعور میں اس بات کو درک کرچکے تھے کہ یہ پھول جو اس کے گلشن میں کھلا ہے، اسے ایک دن پوری عالم انسانیت کو اپنی خوشبو سے معطر کرنا ہے۔ میں کسی اور نہیں بلکہ ملت خداداد پاکستان کے عظیم سپوت *شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی* کی بات کرنا چاہ رہا ہوں، جن کی ذات بزرگ پہ قلم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچوں کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوکر ان کے شایان شاں الفاظ کے موتی تلاش کرنا ضروری ہیں، مگر ان کی ذات اس قدر بزرگ ہے کہ الفاظ کے ہیروں کی مالا پرو کر قرطاس کے گلے میں پہنائیں تو بھی عجب سا احساس تشنگی رہتا ہے، کہ نجانے حق ادا ہوا یا نہیں۔
نجانے کیوں ہر قومی، ملی، ملکی اور عالمی ایشو پر اس شہید کے چھن جانے کے غم کا احساس جاگ اُٹھتا ہے، جس سے کبھی ملاقات ہی نہ ہوئی، جس کو اس کی دورانِ حیات نہ کبھی دیکھا، نہ سنا۔۔۔ پھر کیوں، آخر کیوں دل میں بے چینی ہوتی ہے، آخر کیوں ان کی یاد میں اپنائیت و سوگواری کا احساس ہے۔۔۔؟ ہر بار ان کی جائے شہادت و جائے مدفن اور بالخصوص ایام شہادت پہ شدت سے خواہش ہوتی ہے کہ کاش اُس عظیم شہید سے ملاقات ہو جائے، اُس کے وجود کی حدت کو محسوس کریں، اُس سے اپنے دل کی باتیں کر لیں، خود اُس کی باتیں سُن لیں، اپنا دُکھڑا سنائیں، ان کے دل کا درد سنیں۔ اپنا درد کہیں اور روتے ہوئے ان کی آغوش میں سو جائیں۔ المختصر! راقم اس قابل نہیں کہ شہید کی حیات مقدسہ پہ مفصل رقم کر سکے، یہ جو کچھ حوالہ قرطاس کر رہا ہوں، یہ بھی ڈر ہے کہ رفقاء شہید کی موجودگی میں رقم کرنا ارباب دانش کے ہاں جسارت نہ گردانا جائے، کیونکہ نہ تو شہید کو دیکھا، نہ ان کے ساتھ ان کی حیات میں پروان چڑھا، جو کچھ ان کی ذات کی بابت علم ہے، وہ بزرگان سے سنا، پڑھا اور کچھ خود محسوس کیا۔
میں ذاتی طور پہ اگر یہ کہوں کہ وہ جگہ جہاں تمام تر تکالیف و تھکاوٹ رفع ہو جاتی ہے، وہ شہید کی مزار ہے تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ یہ وہ قلبی حالت ہے، حس کو مرقد شہید پہ بارہا حالت وجدان میں کشف کیا ہے۔
یہاں *ایک واقعہ* ضرور مکفل تحریر کرنا چاہوں گا۔۔۔۔۔
میرے والد بزرگ پدر عزیز جو کہ خود ایک وسیع تنظیمی تجربہ رکھتے ہیں اور راقم ان کی بدولت ہی آئی ایس او سے ہم آہنگ ہے، زیارات مقامات مقدسہ سے واپس پلٹے تو کچھ ہی ماہ بعد مرکزی کنونشن آئی ایس او پاکستان مرقد شہید پہ منعقد ہو رہا تھا، پدر بزرگوار بھی وہاں تشریف لائے اور واپسی پہ ایک عجب بات کہہ گئے، فرماتے ہیں جو خوشبو کربلا میں روضہ مبارک حضرت امام حسین (ع) پہ محسوس کی تھی، اگر پاکستان میں کسی جگہ سے وہی خوشبو آتی ہے تو وہ یہ مزار شہید ہے اور ایسا فقط اس بار نہیں، جب بھی یہاں آیا محسوس ہوتی ہے۔ پہلے پہچان نہیں تھی کہ یہ کیسی خوشبو ہے، مگر اس بار مانوس ہوگئی کیونکہ اس کے منبع سے لمس جو کر لیا تھا۔”
یہ بات بلا شبہ درست ہے اور شہید کی حیات طیبہ اس قدر شفقت پدری اور آغوش مادر کی مانند ہے کہ آج بھی احساس مہر و محبت لمس کیا جا سکتا ہے۔ یہ شہید اس قدر عزیز کیوں ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں، مگر سب سے مہم تر وجہ شہید کی ملت عزیز کے لئے جہد مسلسل ہے، جو زمانہ طالب علمی سے شروع ہو کر تا دم مرگ ہر لمحہ پہلے سے جوان جاری و ساری رہی۔ شہید کی ذات پہ مختلف بزرگان کی تقاریر اور تحریروں سے چند الفاظ جو کانوں اور آنکھوں سے اترتے ہوئے دل میں ٹھہرے اور دل نے انہیں خون کی روانی کے ساتھ پورے وجود کے انگ انگ میں رواں کر دیا، ان حروف کے موتیوں کو قارئین کی نظر کرنا چاہوں گا۔
عزیزان!! ہر انسان کی جدوجہد کو اس کے ظاہری عمل اور اس عمل کے پیچھے پنہاں فکر کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے چوبیس سال بعد پاکستان کے دینی حلقوں میں یہ بات مسلمہ ہوچکی ہے کہ شہید کا عمل صائب اور ان کی فکر درست تھی۔ اگرچہ یہ بات ان کی حیات میں اس حد تک ثابت نہ تھی۔ متعدد علماء اور دیگر رہنماء جو ایک زمانے میں ان کے عمل کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی فکر کے لحاظ سے تردد کا شکار رہتے تھے، لیکن آج وہ بھی شہید کے گُن گا رہے ہیں۔ گویا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سچے اور مخلص انسانوں کو اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے جان گنوانا پڑتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے عمل کی پاکیزگی اور ان کی فکر کی سچائی نہ صرف ان کی اپنی شخصیت میں تبدیلی لائی بلکہ ہزاروں لاکھوں دوسرے انسانوں میں تبدیلی کا مؤجب بھی بنی ہے۔
ایک معتبر سینئیر برادر نے کسی عالم دین کا جملہ سنایا، کہتے ہیں کہ میں پاکستان میں جس بھی دینی جوان سے ملا ہوں، وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈاکٹر محمد علی شہید سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈاکٹر شہید کی زندگی کا اہم ترین اور نمایاں پہلو اُن کا ہمیشہ مت
حرک رہنا ہے، وہ نامساعد حالات میں بھی ہمیشہ متحرک رہتے بلکہ ایسے حالات ہی کو عمل کا بہترین وقت سمجھتے تھے۔ ان کی فکر یہ تھی کہ *ہمیں اپنے آپ پر نامساعد حالات کا بوجھ ڈالنا چاہیئے، تاکہ ہم اپنے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں اور اپنے سینوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے کھول سکیں۔* شہید حقیقی معنوں میں فکر اسلام ناب کے عملی پیروکار اور عملی رہنما تھے۔ شہید اس عمل کے عملی نمونہ تھے کہ جب بھی انسانیت کے لئے نامساعد حالات ہوں تو ہمیں اپنی ہر چیز قربان کر دینی چاہیئے، کیونکہ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو ہم انسان دشمن استکبار و استبدادی قوتوں کے حملوں کی موجوں اور ان کی تحریکی کاوشوں کے فکری بھنور میں پھنس کر انہی کی بعض حرکات کی نقالی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
شہید ڈاکٹر ہر محفل میں دو کام ضرور کرتے تھے، ایک تو دعا اور مناجات کا اہتمام اور دوسرا شرکاء کو حالات حاضرہ سے با خبر رہنے کی تلقین، بالخصوص جوانان امامیہ سے مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے کہ کسی لمحہ بھی عالمی حالات و واقعات سے بے اعتنائی مت برتیں کہ آپکا ایسا کرنا آپکو غفلت کا شکار کر دے گا۔ شہید کی فکر خط امام کے شفاف آئینہ میں پروان چڑھی تھی، حس کے مطابق ہم اپنی ذات، تشخص اور حقیقت سے متصادم کسی بھی واقعے اور چیز کو تسلیم کرنے کے لئے تیار تو ہوسکتے ہیں، مگر کسی بھی قیمت پہ حق و صداقت کی علمبرداری سے غافل نہیں ہوسکتے۔ ڈاکٹر شہید کی اپنی کوئی مخصوص دنیا نہ تھی، بلکہ انہوں نے اپنے وجود کو اجتماع سے مربوط کر لیا تھا۔ فکری طور پر وہ اپنے اس تعلقات کی نوعیت کو سمجھتے تھے اور اس میں بالکل واضح تھے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں قبل از وقت اپنی وصیت لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اگرچہ شہید ڈاکٹر کا عمل کے میدان میں بہت متحرک ہونا اور تحریر و تقریر کے ذریعے ان کی جانب سے کوئی قابلِ ذکر مواد منتقل نہ ہونا، ہمارے لئے ایک بہت بڑی محرومی کا باعث ہے، تاہم ڈاکٹر صاحب فکری لحاظ سے ایک مضبوط اور پختہ انسان تھے اور غور و فکر کے عمل کو ہمیشہ جاری رکھتے تھے۔
اگرچہ آج کے رہنماء اور تمام اہم جماعتیں اپنے آپ کو ڈاکٹر شہید کے نقش قدم پر چلنے والے اور پاکستان میں ان کے قائم کردہ اصول عمل کے وارث قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ حسبِ منشا عوامی محبت اور تقدس حاصل نہیں کر پائے، گروہ در گروہ میں تقسیم ہو کر مثبت کردار ادا نہیں کر پا رہے اور بعض اہلِ نظر کے مطابق انہوں نے راہِ راست سے بھٹک کر منفی پہلوؤں کو اختیار کر لیا ہے۔ ایسے موقع پر جب ہم شہید کی چوبیسویں برسی منا رہے ہیں، ہمارے راہنماؤں اور ملی تنظیموں کو اپنے اندر اس حقیقی عمل و فکر کے فقدان کا سبب تلاش کرنا چاہیئے، جس کے ڈاکٹر شہید امین تھے۔ یہ جاننا بہت مہم ہے کہ حقیقی ایمان اور کردار کے خلوص کی وہ جھلک جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا خاصہ تھی اور جو کیسی بھی صورتحال ہو، ان کی ذات اور ان کے اجتماعی کاموں میں نمایاں تھی، اب کہاں ہے یا اس کا رنگ پھیکا کیوں پڑ گیا۔؟
شہید کی ذات اک بحر بے کراں ہے کہ اس پہ جتنا لکھیں کم ہے، مجھ جیسا راقم جو ابھی اس میدان عظیم میں طفل مکتب ہے، شہید کی وسیع ذات کی ایک جہت کا ایک پہلو بھی عیاں کرنے سے قاصر ہے، البتہ شہید ہی کی ایک بات سے اختتام کرنا چاہوں گا کہ دیکھیئے شخصیت جتنی مرضی بڑی ہو، اس کا ذکر جتنا زیادہ ہو، اگر اس سے کوئی چیز بھی عملی طور پر انسان نہ لے سکے تو فقط اس کے ذکر سے یا اس کے مبالغہ سے یا اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے آدمی کسی طریقے سے بھی شریک سفر نہیں ہوسکتا۔ دس گنا بڑی تصویر بنا دی جائے، کتابیں شائع کر دی جائیں، اس شخص کے اوپر اشعار پڑھ لیے جائیں، لاحاصل ہے۔