مضامین

ماں!!!

تحریر: سید قمر رضوی

سوشل میڈیا کی بے ہنگم دنیا میں چہل قدمی کرتے ہوئے قدم اک آن کو تھم گئے، جب ملاقات ہوئی اپنی ایک ماں سے۔ ماں!!! خدا کا استعارہ۔ سراپا محبت و شفقت۔ جس کی ڈانٹ اور مار میں بھی نرمی۔ خدا کی امانت کو اپنے بطن میں پرورش کا ماحول دینا اور پھر جنم دے کر دنیا کی نعمتوں سے اس کی پرورش کرنا ایک ماں ہی کا خاصہ ہے۔ گھر کا وہ مرکز کہ ہر رشتہ اسی کی بدولت سب سے منسلک اور مضبوط۔ بیٹے کی پشت پناہ اور بیٹی کی نزدیک ترین سہیلی۔ انسان کی پیدائش سے لیکر ماں یا اولاد میں سے کسی ایک کی رخصتی تک ایک یہی رشتہ ہے کہ جس کی تشریح ممکن نہیں۔ بچپن میں پرورش کرنا، آداب و اخلاق کی تربیت دینا، تعلیمی مراحل طے کروانا، غذا کا خیال رکھنا، اولاد کی بیماری میں صحتیاب ہونے تک خود سولی پہ ٹنگے رہنا، لباس کی فراہمی۔۔۔ الغرض ایک انسان کی اس دنیا میں ایسی کونسی ضرورت ہے جو ماں سے منسلک نہ ہو اور اس نے اس ضرورت کو اپنی جان پر کھیل کر نہ پورا کیا ہو۔۔۔۔

آیئے! تھوڑی دیر کے لئے اپنی اپنی زندگی کی فلم کو ریوائینڈ کرکے دیکھتے ہیں۔ بچپنے کے بخار میں راتوں کو جاگ اٹھنا اور ماں کو ہمیشہ پہلے سے ہی جاگتا ہوا پانا اور لپک کر دوا اور پانی پلا کر اپنے کاندھے پر سُلا دینا۔ ہماری بلا وجہ کی ضدوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور بالآخر ضد کو پورا کروا دینا۔ صبح سویرے اسکول کی تیاری کروانا اور پھر دوپہر کو من بھر کے بستے کو اٹھا کر اسکول سے گھر تک لانا۔ اپنی فرمائش کی ہر چیز پکا کر دینا اور کبھی ناپسندیدہ چیز پر ناگواری کے اظہار پر پسند کی چیز پکا کر کھلانا، لیکن بھوکا نہ رہنے دینا۔ ہمارا بازار جاکر بے تکی چیزوں اور کھلونوں میں دلچسپی ظاہر کرنا اور ماں کا خالی پرس ہونے کے باوجود وہ چیز دلوا دینا۔ نہایت کم وسائل میں سارے کنبے کو پالنا اور سب بہن بھائیوں میں مساوات قائم رکھنا۔ والد کی سختیوں کے آگے سپر بن کر کھڑی رہنا۔ سخت موسم کے روزوں میں سحری و افطاری کا لامتناہی سلسلہ کمالِ مہارت سے نمٹانا اور پھر دستر خوان کو سمیٹ کر برتنوں اور گھر کی صفائی ستھرائی قائم رکھنا۔۔۔

گھر کے تمام کام کاج کے دوران اپنی مذہبی ذمہ داریاں بھی پوری کرنا۔ تعلیم حاصل کرنے کے دور میں بہترین وسائل اور ماحول کی فراہمی، ساتھ ہی دعاؤں کا وہ سلسلہ کہ نالائق سے نالائق اولاد بھی سرخرو ہو کر نکلے۔ اولاد کے چہرے پر کسی بھی قسم کی پریشانی کے آثار کو بھانپ کر خود پریشان ہو جانا اور اسکا حل نکلنے تک خود بیتاب رہنا۔۔۔۔۔ اور اپنا یہ حال۔۔۔ کہ کچھ بڑے ہوتے ہی نا فرمانی، بدتمیزی، زبان درازی اور پیر پٹخ کر گھر سے نکل جانے جیسے بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بھی مطمئن رہنا اور اس پر بھی ماں کے صبر کا یہ عالم کہ چپ سادھ کر بچوں کے کھانے اور خیر سے گھر آجانے کی فکر میں غرق رہنا۔ بچہ گھر سے روٹھ کر جائے یا خوشی خوشی۔۔۔ ماں کا دل اس کی واپسی تک اسی میں اٹکا رہتا ہے۔ لیکن جس ماں کی تصویر نے مجھے رک کر یہ سب کچھ سوچنے پر مجبور کیا، اس ماں کا بچہ نہ تو روٹھ کر گھر سے گیا تھا اور نہ ہی اپنی خوشی سے، بلکہ اس کے بچے کو گھر سے اٹھا کر اس کی آنکھوں کے سامنے ایک قاتل اور ڈاکو کی صورت میں لے جا کر گمشدہ کر دیا گیا۔ اس منظر کو سہنے کا حوصلہ یا تو خدا جانے یا وہ ماں خود جانے۔

اپنے بچے کا سراغ پانے کے لئے وہ ماں در در کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے۔ انصاف نامی ناپید جنس کی تلاش میں لکڑی کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ چادر اور چار دیواری کی محافظوں کو اپنی بے بس نظروں سے اپنی ہی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے؛ مگر خاموش ہے کہ بے بس ہے۔ اپنے بَس کے آخری ہتھیار، اپنے رب کی لاٹھی کو تھامے، خود کفن پہن کر کھلے آسمان تلے آ بیٹھی ہے کہ ایوانوں میں بیٹھے اپنی ماؤں کے لاڈلوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکے۔ شاید، شاید کسی طاقت کے متوالے کو اس ماں کی صورت میں اپنی ماں نظر آسکے اور وہ اس کی آنکھوں میں موجود اس نیند کو دیکھ سکے کہ جسے وہ اپنے لعل کے ساتھ کھو چکی ہے۔ شاید کہ غیرت و حمیت کے ابلتے ہوئے اس معاشرے میں کسی غیرتمند کی غیرت بھی جوش مارے، جو اپنی ہی اس دوسری ماں کو احترام بخش سکے۔۔۔ اسے اسکے لعل کے ساتھ زندگی کے باقی ماندہ دن گزارنے کی خوشی کا اہتمام کرسکے۔۔۔۔ شاید۔۔۔۔!!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button