پاکستانی شیعہ خبریں
بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ فروعی اختلافات بھلا کر متحد ہونا ہے،
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کے صورت حال، دہشت گردی، اور سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے والی رسہ کشی نے وطن عزیز کو معاشی و اقتصادی بحرانوں سے دوچار کر دیا ہے ۔ ان بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مذہبی اور سیاسی راہنماوں میں افہام و تفہیم کا جذبہ پیدا کیا جائے، وہ فروعی اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو جائیں اور اپنی اجتماعی توانائیاں ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کے لیے بروئے کار لائیں، مجلس وحدت مسلمین پاکستان سیاسی ایشوز کی بجائے فکری اور نظریاتی بنیادوں پر کام کر رہی ہے کیونکہ ملک میں ایک پاکیزہ معاشرے کا قیام ہمارا پہلا ہدف ہے، وہ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں اخبار نویسوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارا ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے لیکن سیاسی اکابرین صرف اقتدار تک رسائی کو اپنا ہدف سمجھتے ہیں، ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدانوں نے اقتدار کی خاطر ملک کو تقسیم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا، موجودہ حالات میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ یہ دونوں امپورٹڈ چیزیں اسلام اور اسلامی ریاست کے خلاف کام کر رہی ہیں، ان دونوں کو اسلامی تصور جہاد کی بنیاد بنا کر پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنما نے کہا کہ اب ایک بار پھر ہمارے ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلنے کی کوششیں کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ سیاسی حکومت کی سرپرستی میں ہو رہا ہے چونکہ سیاسی حکومتوں کے مفادات ہمیشہ امریکہ سے وابستہ رہے ہیں، اس لیے اب بھی اسی کے اشاروں پر سیاسی حکومت اپنے اقتدار کے تحفط اور ایجنسیاں اپنے مقصد کے حصول کے لیے شرپسند عناصر کو استعمال رہی ہیں، انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں ملک و قوم کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، کراچی میں مختلف اقوام آباد ہیں، وہاں عوام کو عدم تحفظ کے احساس میں جکڑ کر سیاست کی جا رہی ہے، اقتدار کی رسہ کشی میں بے گناہ افراد کو قربانی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا رہا ہے جس میں لڑائیاں ہوتی رہیں لیکن سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں علامہ امین شہیدی نے کہا کہ حالیہ عشرہ محرم کے دوران کراچی میں دہشت گردی کا کوئی بڑا سانحہ رونما نہ ہونا امن کی علامت نہیں، اس سے قبل دو ایسے المناک سانحات رونما ہو چکے تھے کہ کراچی کسی نئے سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اب بھی وہاں کالعدم جماعتوں کو ایک منصوبہ بندی کے تحت پروموٹ کر کے آگے لایا جا رہا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹریفک کا اشارہ توڑنے والوں کے خلاف تو قانون حرکت میں آ جاتا ہے لیکن انسانوں کے گلے کاٹنے والوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ دراصل حکمران خود یہ چاہتے ہیں کہ خون خرابہ ہوتا رہے، فرقہ واریت زور پکڑے اور عوام آپس میں الجھتے رہیں۔
ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری نے کہا کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو دنیا پر حاکمیت کے لیے آیا، لیکن ایک سازش کے تحت اس کا ایسا چہرہ سامنے لایا جا رہا ہے کہ لوگ اسلام سے دور رہیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی اگر انتخابی سیاست کی بجائے نظریات کی بنیاد پر ہو تو اس کے خاطر خواہ نتایج سامنے آ سکتے ہیں، خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب الیکشن کے بعد وزارتوں کے حصول کی جنگ چھڑ جاتی ہے، انہوں نے توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریم ص کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی سزا موت ہے اور اسلام کے کسی بھی مکتب فکر کی اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس قانون کا کہان تک درست استعمال کیا جا رہا ہے، اس کا صحیح معنوں میں اطلاق یقینی بنانے کے لیے ترامیم کی ضرورت ہے، تاکہ توہین رسالت کی آڑ میں ذاتی عناد اور سیاسی انتقام کا راستہ روکا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت چونکہ خود ایک باطل نظام پر قائم ہے اس لیے اس سے توہین رسالت کے قانون کا درست استعمال کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی، اگر اس میں ترمیم کرے گی تب بھی اس میں مغرب کی مشاورت شامل ہو گی۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ گورنر پنجاب نے توہین رسالت کے اس قانون کو کالا قانون کہا تھا جو ہمارے ملک میں رائج ہے وہ اپنا موقف واضح نہ کر سکا اور اس کی اسی بات کو بنیاد بنا کر اسے قتل کر دیا گیا اور بعض عناصر قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں، سلیمان تاثیر کے قتل اور قاتل کی جانب سے قانوں کو ہاتھ میں لینے کا فائدہ اسلام مخالف قوتوں کو ہوا، جو مسلمانوں کو انتہا پسند ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک نمائشی ادارہ ہے، آج تک اس ادارہ کی کسی سفارش پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، اس لیے اگر توہین رسالت کے قانوں میں ترمیم کی بھی گئی تو اس میں اسلامی نظریاتی کونسل کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔