آٹھ ربیع الاول یوم شہادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
آٹھ ربیع الثانی دو سو بتیس ھجری کو جمعے کے دن شہر مدینہ میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی ۔
آپ خاندان وحی و نبوت کے چشم و چراغ تھے اور روی زمین پر خلفاء خدا میں سے ایک برحق خلیفہ ، مبشّرین و منذرین و شہداء و صدیقین میں ایک مثالی شخصیت کے
مالک تھے ۔ آپ ایمان و جہاد و با عظمت امامت کی خون چکاں دو سو پچاس سالہ تاریخ ہدایت کی گیارھویں کڑی تھے جس نے خاتم انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری وصی خاتم اوصیا حضرت حجت بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی پرورش کی جو کہ انشاء اللہ جلد ہی دنیا میں عدل و انصاف کو زندہ کرکے عالمی حکومت عدل کا قیام عمل میں لائیں گے اور دنیا سے استبداد کا خاتمہ کریں گے ۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مقابلہ بھی اپنے اجداد طاہرین کی طرح اس وقت کے ظالم و جابر و استحصالی و استبدادی غاصب لٹیرے عیار و مکار عباسی خلفا سے تھا ۔ آپ کی مثال اس دور میں ایسی ہی تھی جس طرح ظلم و استبداد کی سیاہ آنداھیوں میں ایک روشن چراغ کی ہوتی ہے ۔
آپ مہتدیوں اور معتمدوں کی دروغگوئی ، فریب ، سرکشی کے دور میں گم گشتہ افراد کی ہدایت کرتے رہے ۔
آپ کی امامت کے دور میں عباسی خلفاء کے ظلم و استبداد کے محلوں کو گرانے کے بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو براہ راست امام (ع) کی ہدایات پر مبنی تھے ان میں سے مصر میں احمد بن طولون کی حکومت کا قیام ، بنی عباس کے ظلم و ستم کے خلاف حسن بن زید علوی کی درخشاں خونچکان تحریک اور آخر کار حسن بن زید کے ہاتھوں طبرستان کی فتح اور صاحب الزنج کا عظیم جشن اس دور کے اہم واقعات میں سے ہے ۔
اس کے علاوہ مخفیانہ طور سے جو ارتباط امام علیہ السلام سے برقرار کئے جاتے تھے اس کی وجہ سے حکومت نے اس باب ہدایت کو بند کرنے کے لئے چند پروگرام بنائے ۔
پہلے تو امام کو عسکر چھاؤنی میں فوجیوں کی حراست میں دے دیا ۔ دوسرے مہتدی عباسی نے اپنے استبدادی اور ظالمانہ نظام حکومت پر نظر ثانی کی اور گھٹن کے ماحول کو بہ نسبت آزاد فضا میں تبدیل کیا اور نام نہاد ، مقدس ماب ، زرخرید ملّا عبدالعزیز اموی کی ” دیوان مظالم ” کے نام سے ریا کاری پر مبنی ایک ایسی عدالت تشکیل دی جہاں ھفتے میں ایک دن عوام آکر حکومت کے کارندوں کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے تھے ۔ لیکن اس ظاہری اور نام نہاد عدالت کا حقیقت بین مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ روز بروز امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا اور چاروں طرف سے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک سے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور عوام کی سیل آسا تحریک سے بنی عباس کی حکومت کے زوال کے خوف سے بنی عباس نے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لئے پروگرام بنایا کہ پہلے تو مال و دولت کو عوام کے درمیان تقسیم کیا جائے تا کہ لوگوں کی سرکشی کم ہو اور عوام کو خرید کر ایسا ماحول بنادیا جائے کہ جس امام حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے میں آسانی ہو ۔ تاریخ شاہد ہے کہ تمام دنیا کے ڈکٹیٹروں کا یہ قاعدہ رہاہے کہ جب بھی ان کے استبداد کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ جلد سے جلد اس آواز کو خاموش کردیں اگرچہ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ آنے والی نسل میں ان کے لئے سوائے رسوائی مذمت کے کچھ نہیں ہوگا اور ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی دنیا نہ صرف یہ کہ حمایت کرے گی بلکہ ان بزرگون کو عظمت کی نگاہ سے دیکھی گی اور ان مظلوموں کی زندگی کے نقش قدم پر چل کر فخر کرے گی ۔
آخر کار امام حسن عسکری علیہ السلام آٹھ ربیع الاول دو سو ساٹھ ہجری کو زہردغا سے شہید کردئے گئے۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا روضہ مبارک عراق کے شہر کاظمین میں واقع ہے جہاں آپ کے چاہنے والوں کا ہجوم رہتا ہے۔