کمزور مگر خوش آئند علامت
یہ گذشتہ سے پیوستہ ہفتہ تھا۔ آٹھ دن کی مدت میں ملک کے سیاسی منظر نامے پر دو مختلف مگر شدید ترین احتجاج ہوئے، جن کی حقیقت شبہ سے بالاتر تھی۔
دس جنوری کو کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری پر ہونے والے بم حملوں میں سو کے قریب ہلاکتیں ہوئیں اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، جس کے بعد انہوں نے طے کرلیا کہ بس! اب بہت ہوچکا۔
شیعہ ہزارہ برادری گذشتہ کئی برسوں سے لشکرِ جھنگوی کے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔
ابتدائی طور پر ان کا مضبوط اور مثبت مزاحمتی احتجاج، نااہل اور مجرمانہ حد تک لاتعلق صوبائی حکومت کے خلاف تھا۔ بہت جلد پورے ملک میں ان سے ہمدردی کی لہر پھیل گئی اور ملک کے طول و عرض میں، ان کی حمایت میں جگہ جگہ دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اگرچہ پاکستان المیوں کا گڑھ ہے مگر وہاں کھلے آسمان تلے بیٹھی، آنسو بہاتی سسکیاں بھرتی ماؤں، بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں نے بھی اُس وقت تک اپنے خاندانوں کے مرد متاثرین کے تابوتوں کے پاس سے اٹھنے سے انکار کردیا تھا، جب تک اُن کے مطالبات پورے نہیں کردیے جاتے۔
اس بات کا اعتراف ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا کچھ سست رفتار ہے، اسے بھی جڑواں بم دھماکوں میں اپنے درجنوں پیاروں کو کھو دینے والے اُن احتجاجی متاثرین کے دکھ اور حقیقت کو سامنے لانے میں وقت لگا۔
متاثرہ خاندان اس حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کررہے تھے، جن کے سربراہوں کو متاثرین سے تعزیت کے دو بول کہنے کی بھی کوئی فکر لاحق نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مظاہرین کے چار روزہ احتجاج نے ہی وفاقی حکومت کو نوٹس لینے پر مجبور کیا۔
وزیراعظم کی سربراہی میں وفاق کی ایک ٹیم کوئٹہ پہنچی اور دن بھر کی مشاورت کے بعد، علمدار روڈ پر بیٹھے ماہرین سے بات چیت کے بعد وزیراعظم نے صوبائی حکومت کی برطرفی کے فیصلے کا اعلان کیا۔
مظاہرین کی طرف سےشہر کا اختیار فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری یا ایف سی کے حوالے کرنا کا مطالبہ تھا۔ ایف سی پر الزام ہے کہ وہ قتل و غارت روکنے کے لیے کچھ کرنے میں ناکام رہی۔ کسی کو اس مطالبے سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن وہ یہ مطالبہ کرنے والوں کے دکھ اور جذبات کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔
خطرے کی زد پر کھڑی متاثرہ ہزارہ برادری نے اپنے پُرامن احتجاج اور نرم رویے سے ثابت کردیا کہ اس کے ذریعے بھی بڑی سے بڑی کٹھن منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ شیعہ ہزارہ کے دیگر مطالبات جیسا کہ لشکرِ جھنگوی کے خلاف موثر کارروائی کا مطالبہ، تحریک کی صورت جاری رہے گا۔
جب کوئٹہ میں متاثرین کی تدفین کا سلسلہ شروع ہونے کے ساتھ ایک احتجاج ختم ہورہا تھا، اُسی وقت اسلام آباد میں ایک اور احتجاج شروع ہونے جارہا تھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں شروع کیا جانے والا لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد، پارلیمنٹ ہاؤس اور دیگر سرکاری عمارتوں کے سامنے دھرنا دینے جارہا تھا۔ ناانصافیوں کے خلاف کیے جانے والے اس مارچ کی تیاریاں ہفتوں سے کی جارہی تھیں۔
یہ احتجاج ایک مذہبی عالم کی سربراہی میں تھا جو خود کو بطور اسکالر دیکھتے ہیں۔ وہ کنیڈا میں اتنے طویل عرصے سے مقیم تھے کہ جو شہریت کے حصول کے لیے کافی ہے لیکن وہ اچانک لاہور پہنچ جاتے ہیں۔
فوج نے ان سے اور ان کے مارچ سے خود کو فاصلے پر رکھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ وفاقی دارالحکومت میں داخل ہوئے۔ ان کا نعرہ تھا ‘انتخابی اصلاحات’ کا جیسا کہ اکثر فوجی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں اپنے خدشات کے اظہار میں کہتے ہیں۔
اس مارچ کے دوران فوجی مداخلت کے خدشات بھی اٹھے۔ تب کیا ہوتا جب پُرامن احتجاج اگر تشدد میں تبدیل ہوجاتا؟
دسمبر میں، لاہور میں خطاب کے دوران انہوں نے انتخابات کے بجائے ایک طویل مدت کے لیے ٹیکنو کریٹس طرزِ حکومت کی بات کی تھی، ایسا ہونا ان کے لیے معاون ثابت نہ ہوتا۔
لیکن پھر بھی ان کی اسلام آباد آمد اور دھرنے سے صرف حکومت کی ہی نیند خراب نہ ہوئی بلکہ تمام جمہوری قوتوں کے درمیان بھی کھلبلی مچ گئی، جس کی وجہ سے وہ سب یک زبان ہوگئے۔
انتخاب میں تاخیر اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی امکانی کوششوں کی مذمت ہونے لگی۔ وہ سب آئین و قانون کی بالا دستی پر متفق ہوگئے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے بعد جمہوری قوتیں جس طرح متحد ہو کر انہیں تنہا کرنے اور ان کے حامیوں کے حوصلے پست کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئیں، پاکستانی سیاست میں وہ ایک نہایت منفرد نظارہ تھا، لیکن امن میں شگاف پڑجانے اور پھر اس کے نتائج کا خطرہ بدستور ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ جمعرات کی شام ڈاکٹر قادری اور حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ممتاز رہنماؤں کے درمیان کئی گھنٹے طویل مذاکرات ہوئے اور اس کے بعد مارچ کی قیادت کرنے والے رہنما نے معاہدے کا اعلان کیا۔
ڈاکٹر قادری کے مطابق مذاکرات کامیاب رہے تھے تاہم لگ یہ رہا تھا کہ جیسے یہ ان کے لیے فیس سیونگ کا معاملہ ہو۔
ایک اچھا معاہدہ طے پ
اچکا تھا۔ جس کے بعد اسلام آباد کے مرکز میں اپنے مذہبی پیشوا کے ساتھ موجود بڑی تعداد عورتوں، بچوں، مردوں اور بزرگوں کامجمع پُرامن طور پر منتشر ہونے لگا۔
دارالحکومت میں آمد کے بعد سے معاہدہ ہونے کے چند گھنٹوں پہلے تک، یہ بہت بڑا مجمع وہیں پُرامن طور پر موجود رہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی اپنے حامیوں پر گرفت تھی۔ مجمع آخری وقت تک قابو کے اندر اور منظم رہا۔
اب یہ بحث تو ہفتوں چلے گی کہ ان کے پُرامن رہنے کا سبب ڈاکٹر قادری تھے یا پھر ان کے خلاف کسی کارروائی سے حکومتی اتحاد کا گریز تاہم ایک بات بالکل واضح ہوچکی ہے۔ آزاد الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کے تحت نئے شفاف انتخابات کا انعقاد کسی بھی طور تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
وہ لوگ جو ‘انجینئرڈ’ انتخابات کے ذریعے من پسند نتائج حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، شاید ان کی طرف سے یہ آخری کوشش تھی لیکن یہ رکاوٹ بھی کامیابی سے عبور کی جاچکی ہے۔
ماضی میں اس طرح کے اقدامات کا مقصد کسی ایک جماعت پر اپنی پسند کی دوسری جماعت کو فوقیت دیتے ہوئے، اسے اقتدار میں لانا ہوتا تھا تاہم اگلے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنا ہوگا، چاہے اس کے نتیجے میں ایک کمزور اور لچکدار اتحادی حکومت ہی کیوں نے بنے، اسے ترجیح دی جانی چاہیے۔
بجائے اس کے کہ بہت زیادہ پیسہ اور توانائی صرف کی جائے، جمہوری قوتوں کو چاہیے کہ حلقہ انتخاب میں اپنی دانشمندی اور حکمتِ عملی کے باعث رائے دہندگان کو اپنی طرف متوجہ کریں۔
لوگوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے، غلط اور درست کا فرق سمجھانے کے لیے زیادہ کچھ درکار نہیں۔
اس کا اظہار باڑہ میں دیے جانے والے مختصر دھرنے سے ہوچکا، جہاں قبائلی اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور احباب کے اٹھارہ جنازے لے کر پشاور پہنچے تھے، جنہیں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک فوج آپریشن کے دوران مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
اس وقت الیکٹرانک میڈیا طاہرالقادری شو میں بُری طرح الجھا ہوا تھا اور اس نے احتجاج اور دھرنے پر وہ توجہ مرکوز نہیں کی جو اُس کا حق تھا۔
دھرنے کے نتیجے میں مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس میں طے پایا کہ ان ہلاکتوں کی تفتیش کی جائے گی اور اس جرم کے مرتکب افراد پر ذمہ داری عائد کی جائے گی۔
اگرچہ یہ ایک چھوٹا قدم تھا لیکن خوش آئند اور درست سمت کی جانب۔ کم نہیں اورزیادہ جمہوریت ہی ہمارے تمام تر مسائل کا جواب ہے۔
اگر سیاسی طور پر اس بات پر اتفاق رائے ہوجائے کہ دہشت گردی کے سوا جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، تو پھر امید ہے کہ اس مسئلے کا بھی سدِباب کیا جاسکے گاَِ۔
مضمون نگار ‘ڈان’ کے سابق ایدیٹر ہیں۔