شہید کا مقدمہ
آج اس ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے کہ جب روئے زمین پر موجود چند شریف، تعلیم یافتہ، غریب پرور، شفیق، بااخلاق، وسیع القلب اور نڈر و بے باک انسانوں میں سے ایک شخص اور کم ہوا۔ آج سبطِ جعفر زیدی کا نہیں، ایک وارثِ رہِ انبیاء و معصومین (ع)، ایک شفیق استاد، ایک بلند پایہ شاعر، ایک علم کے خزانے، ایک چلتے پھرتے کتب خانے، ایک یتیم پرور، ایک سچے عزادار، ایک خاشع نمازی، ایک انسانی سراپے میں چھپے فرشتے اور ایک مطمئن نفس کا قتلِ ناحق ہوا ہے۔ یہ قتل اسی رسمِ قتل کا تسلسل ہے جسکی بنیاد قابیل کے ذریعے شیطانِ مردور نے اوائلِ انسانیت میں جاری کی۔ اسی رسم کا شکار انبیاء و مرسلین اور خدا کے برگذیدہ بندے ہر دور میں ہوتے رہے۔ اس رسم نے افضل الابنیاء خاتم المرسلین (ص) کی لختِ جگر کو بھی دارِ فانی سے رخصت کرنے کا سامان کیا، اور اسکے بعد سے توحید پرستوں کے لبادے میں منافقین کے ٹولے کا حوصلہ اتنا بلند ہوا کہ خانوادہء رسول (ع) اور آپ (ع) سے متعلق ہر ذی روح پر یہ دنیا تنگ کی جاتی رہی۔
آج استاد سبطِ جعفر صاحب کی شہادت اسی جامِ شہادت نوشی کا تسلسل ہے جسکا لطف کبھی میثمِ تمار نے اٹھایا اور کبھی عمارِ یاسر نے۔ یہ شہادت کی وہی حلاوت ہے جسے قاسم ابن الحسن (ع) نے شہد سے زیادہ شیریں محسوس کیا تھا۔ دشمن کی ان گولیوں کو شاید اس مجاہد نے ایسے ہی محسوس کیا ہوگا، جیسے سعید خزری (ر) نے یزیدی لشکر کے تیروں کو اپنے پاکیزہ بدن میں پیوست ہوتا ہوا محسوس کیا ہوگا۔ حسین (ع) کے اس غلام کے جسم سے خون کے پھوٹتے ہوئے فواروں میں یقیناً وہی حرارت ہوگی جو جون (ر) کے جسم سے بہتے لہو سے پہلوئے حسین (ع) کو محسوس ہوئی ہوگی۔ یقیناً اپنے اس سچے پیروکار کا استقبال مولا علی (ع) نے کھلے بازوؤں سے کیا ہوگا۔ علی اکبر (ع) کی پیاس کے اس نوحہ خوان کو جامِ کوثر بھی انہی جوان ہاتھوں سے نصیب ہوا ہوگا۔ حسین (ع) کے اس بے لوث عزادار نے آج بالآخر حسین (ع) ہی کے قدموں میں جا کر دم لیا اور سیدہ زہرا (س) کے آنچل کی نرم چھاؤں میں اپنی اصلی منزل پاگیا۔
لیکن ہمارا کیا ہوا؟ ہم تو بارِ دیگر یتیم ہوگئے۔ ہمارے سر سے ایک اور شفیق سایہ اٹھ گیا۔ ہم کہاں اپنا درد بیان کریں؟ کون ہے جو ہم مظلوموں کی فریاد سنے؟ یہ ناکارہ، بے ضمیر، بدبودار لاش نما بدمعاش حکومت اور انتظامیہ کے لنگڑے، لولے، اندھے، بہرے دماغی مریض جن کا محور و مرکز محض اپنی اپنی ذات؟ کہ جاتے جاتے بھی اپنی لنگوٹیاں کس کر اپنی ہی مراعات کو قوانین بنا کر خود پرستی کی جہنم میں کودنا؟ جمہوریت نامی اس نجس اور منحوس اموی تسلسلِ حکومت کی قیمت میرے بھائیوں، بہنوں اور بچوں کا خون؟ نہیں! اب نہیں۔ اب کسی سے کوئی گلہ نہیں۔ شکایت صرف رسولِ خدا (ص) سے کہ مولا! آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے آج ظلم کا دور روا رکھا گیا؟ کس طرح آپکی پاکیزہ نسل کا ایک اہل ترین فرد بے دردی سے آپکے پاس بھیج دیا گیا؟ آپ کی طاہر نظروں کے سامنے ہے کہ آپ کی سنت کا محی اور آپکے خانوادے کا منقبت خواں کس طرح خون میں نہلا دیا گیا!
یا امامِ عصر (عج)! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ آپ کے ظہور کا مشتاق اور تمام دنیا میں آپکے ظہور کی تشویق بیدار کرنے والا آپکا سپاہی کس سفاکی سے شہید کر دیا گیا؟ پوری دنیا سے چھپا کر رکھے گئے اپنے زخم ہائے دل دکھانے کو برسوں سے آپکا منتظر تھا لیکن ظالم اس کے اور آپکے ظاہری دیدار کے درمیان دیوار بن گئے!
سبطِ جعفر اور تمام مظلوم شہداء کا مقدمہ ہم عدالتِ خداوندی میں پیش کرتے ہیں۔ آلِ محمد (ع) کو اپنا وکیل اور خدا کو اپنا منصف قرار دیتے ہیں۔ تمام انبیاء و مرسلین، آئمہء معصومین، صدیقین، شہداء وصالحین کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا گواہِ عینی قرار دیتے ہیں اور منصف کی عدالت سے پہلے سے لیکر آخری ظالم، ظلم کا ساتھ دینے والوں اور خاموش تماشائیوں کے لئے دردناک عذاب اور تاابد لعنت کے متمنی ہیں، اس یقینِ کامل کے ساتھ کہ اس منصفِ برحق کے یہاں دیر ہے، اندھیر نہیں اور وہی ہے جو ظالموں کو ایک وقتِ معلوم تک کی چھوٹ دیکر رسی کھینچتا ضرور ہے۔