پاکستانی شیعہ خبریں

پاکستان میں شیعہ قتل عام کے پیچھے خفیہ ہاتھ

killingموت ان دنوں بوالہوسی کی رہین منت ہے جو ایسی شکلوں میں وارد ہو رہی ہے جو انسان کے لئے انتہائی ہولناک ہیں، مثلاً کبھی اس طرح انسان موت سے دوچار ہو رہا ہے کہ اس کے بدن کے چیتھڑے اڑے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی انسان اس طرح سنگدلی کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ اپنے دشمنوں کی لاشوں پر پیشاب کرنے سے بھی اس کا جوشِ انتقام ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ انسان اپنے بھائیوں کو قتل کرتا ہے پھر اس کی آنکھیں باہر نکال لیتا ہے اور یہ وحشیانہ عمل وہ مذہب کے نام پر کرتا ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں ایک ایسے انسانی المیے نے جنم لیا، جس کی شدت ناقابلِ تصور اور ناقابلِ بیان ہے اور جسے مغربی میڈیا نے دانستہ طور سے بالکل ہی نظرانداز کیا، بغیر کسی احساسِ پشیمانی اور شرمندگی کے۔

صرف اپریل 2012ء میں ڈھائی سو سے زائد شیعہ مسلمان دن دھاڑے معذور بنا دئیے گئے اور قتل کر دئیے گئے۔ تقریباً ایک سو پچاس شیعہ مسلمانوں کی دونوں آنکھیں نکال لی گئیں۔ بہت سے افراد کو اس انداز میں قتل کیا گیا کہ ان کے چہروں کو پتھروں کی ضرب سے بری طرح مسخ کیا گیا تھا یا چہروں پر تیزاب ڈال کر انھیں ناقابلِ شناخت اور حد درجہ بدنما کر دیا گیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق جو کسی طرح جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، کا کہنا ہے کہ وہابی حملہ آور رحم نام کی کسی چیز سے بالکل ہی آشنا نہیں ہیں۔ یہ جرائم پیشہ قاتل اس وقت بالکل آزاد ہیں اور اپنی برپا کی گئی خونریزی کے جشن میں بلاخوف و خطر شریک ہوتے ہیں۔

قتل کے یہ تمام واقعات اس طرح سے انجام پا رہے ہیں گویا کہ وہ ایک قانونی عمل ہے اور اس کے انجام دینے والوں میں سپاہِ صحابہ نامی دہشتگرد تنظیم (جسے بجا طور سے سپاہِ یزید کہا جاتا ہے) سرِفہرست ہے۔ واضح رہے کہ 1985ء میں پاکستان کے صوبۂ پنجاب میں یہ تنظیم اسلامی انقلاب کے ردِعمل میں اور ان شیعہ مسلمانوں کی مخالفت میں وجود میں آئی تھی جو بتدریج پاکستانی حکومت میں اپنی مثبت صلاحیتوں اور حرفت بازیوں کے پیشِ نظر اہم سیاسی و اقتصادی مقامات کے حصول میں کامیاب ہو رہے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس انتہا پسند گروپ کو اس وقت کے صدرِ مملکت جنرل ضیاءالحق کی شہ پر پروان چڑھایا جا رہا تھا، جس کا حتمی ہدف پاکستان میں ایک ایسی وہابی ریاست کا قیام تھا جو ملک میں شیعہ اقلیت کی نابودی کے لئے سرگرمِ عمل ہو۔

درحقیقت یہ تاثر بہت ہی عام ہے کہ اس زمانے کے صدرِ مملکت جنرل ضیاءالحق نے اس طرح کے انتہاپسند گروہوں کی نشوونما اور پرورش میں اپنا انتہائی اہم کردار ادا کیا اور پھر شیعہ اقلیت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے انھیں ایک طرح کا خفیہ اختیار نامہ دے دیا۔ وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت جس کا زیادہ تر انحصار وہابی انتہا پسندوں کی سیاسی حمایت پر تھا شیعہ مسلمانوں کی خونریزی کے سیلِ بیکراں پر بالکل ہی خاموش رہی۔ بہرحال جنوری 2001ء میں صدر پرویز مشرف کی حکومت نے سپاہِ صحابہ کو بالآخر ایک دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا ،پھر فوراً ہی انکے خلاف دارو گیر کی ایک سخت مہم چلائی گئی جس کی نتیجے میں سپاہِ صحابہ کے بیشتر ارکان زیرِ زمین چلے گئے۔

لیکن یہ انتہا پسند گروہ بعد میں لشکرِ جھنگوی اور جیشِ محمد جیسے ناموں کے ساتھ پھر سے سرگرمِ عمل ہو گیا۔ بالآخر تحریکِ طالبان ابھری جو اسی دہشتگرد گروہ کی ایک شاخ ہے، جبکہ اس کے نام کے انتخاب میں بڑی مہارت دکھائی گئی، تاکہ عوام یہ تاثر لے کہ گویا یہ طلبہ کی کوئی تحریک ہو۔ شیعہ گروہ کے قتلِ عام سے قطعِ نظر دوسرے بہت سارے افراد بھی ان دہشتگردوں کہ جنہیں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں جن میں سے ایک ’’آئی ایس آئی‘‘ بھی ہے کی حمایت حاصل تھی، کی قاتلانہ مہم کے شکار بنے۔

تعلیم یافتہ شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز، یونیورسٹی پروفیسرز اور ممتاز طلبہ شامل تھے اس موذی اور دسیسہ کار گروہ کے ہاتھوں گلگت، بلتستان، پاراچنار، کوئٹہ جیسے علاقوں حتٰی کہ پاکستان کے بڑے شہروں جن میں لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد اور جنوبی پنجاب کے شہر شامل ہیں، میں لقمۂ اجل بن گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ سالوں میں ہونے والے شیعہ مسلمانوں کے قتل کے بے شمار وحشیانہ و بے رحمانہ واقعات کے الزام میں ایک شخص کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا اور اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان دہشتگردوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی بھی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ واحد گروہ جو تعصب کی شدت سے دوچار اس ملک میں شیعہ سمیت تمام اقلیتوں کی حمایت کیا کرتا تھا وہ پیپلز پارٹی کا گروہ تھا جو اس وقت قتل کی اس بہیمانہ مہم پر ایک طرح کی لاتعلقی کی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے بالکل ہی خاموش ہے۔

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ حکمرانوں نے اقلیتوں بالخصوص شیعہ مسلمانوں کے آلام و مصائب کے حوالے سے آنکھیں بند کر لی ہیں، جبکہ شیعہ مسلمانوں نے ملک کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی میں بہت زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ محمد علی جناح جو پاکستان کے بانی تھے، خود ایک شیعہ مسلمان تھے۔ جنہوں نے عالمی برادری کی نظروں میں پاکستان کا بہترین امیج قائم کیا۔
اس کے برعکس گذشتہ سالوں کے دوران شیعہ مسلمان اپنے تمام مصائب کے باوجود صبر کی روش پر گامزن رہے اور انھوں نے کبھی بھی دہشت کا جواب دہشت سے یا نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیا۔

سعودی عربیہ اور بحرین جیسے ممالک وہابیت کی ترویج و تبلیغ میں مصروف ہیں اور انتہا پسندی کے فروغ میں انتہائی معاون و مددگار ہیں۔ ان ممالک نے پاکستان سے صرف غیر شیعہ مسلمانوں کو اپنے ہاں ملازمت فراہم کرنے کی پالیسی بنائی ہوئی ہے، میڈیا کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بحرین میں پاکستان کے ریٹارئرڈ فوجی افسروں کو اپنے ہاں ملازمت دے رکھی ہے، تاکہ وہ ملک میں جاری عوامی تحریک کو کچل سکیں۔ چند تازہ رپورٹوں سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ شیعہ اقلیت کے خلاف مختلف حکومتی اداروں میں تعصب اور امتیازی سلوک کا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔

درحقیقت یہ پاکستانی معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ دینے کا ایک بالواسطہ عمل ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان میں جاری ہدف مندانہ قتل نہ صرف پاکستان کے عدم استحکام کا سبب بن جائے، بلکہ اس ملک کو اس حد تک ابتری سے دوچار کر دے کہ اسے عالمی سطح پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کی پناہ گاہ اور سرچشمہ قرار دے دیا جائے۔ قتل کے ان سنگدلانہ اور وحشیانہ واقعات نے حتٰی کہ سنی مسلمانوں کے غصے کو بھی بھڑکا دیا ہے، جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کے جرائم سے پاکستان کی بقاء معرضِ خطر میں ہے۔

تقریباً پورے پاکستان میں سنی مسلمانوں کی اکثریت اس طرح کی قاتلانہ کارروائی کو قومی وحدت کے لئے خطرہ سمجھتی ہے، جس سے پاکستان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے گا اور جو ملک کو انتہا پسندی کی ایسی گہری کھائی میں گرا دے گی، جس سے پھر نجات پانا ایک امرِ محال تصور کیا جائے گا۔ اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ملک میں واقعتاً انتہا پسندی کو لگام دینا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان خفیہ ہاتھوں کو قطع کر دے، جو عوامی حکومت، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور عدالتی نظام کے اندر انتہاپسند گروہوں کی تقویت اور مضبوطی کا باعث ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر اسماعیل سلامی
ترجمہ: سید راشد احد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button