شکست خوردہ دشمن اور زخمی سانپ
اس وقت پاکستان میدانِ جنگ بنا ہوا ہے، ایسا میدانِ جنگ جس میں دنیا بھر کی ہاری ہوئی اور شکست خوردہ باطل طاقتیں ایک مرتبہ پھر اپنا مقدر آزما رہی ہیں۔ عراق میں زبردست شکست کے بعد، افغانستان میں انتہائی ذلت کے بعد، شام میں جگ ہنسائی کے بعد، لبنان میں چھترول کے بعد، اپنے ٹوٹے ہوئے ہتھیاروں، ناکام منصوبوں، نامکمل خاکوں اور ادھورے خوابوں کو اٹھا کر امریکہ نواز لشکر، سپاہیں اور ٹولے اب ملت پاکستان سے نبرد آزما ہیں۔ ہمیں اس خطرے کو درک کرنا چاہیے کہ اس وقت "پاکستان کا ایٹم بم ہی مسلمانوں کی سلامتی کے لئے امتحان بن گیا ہے۔” اس وقت استعماری طاقتوں کی اوّلین ترجیح یہ ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو طالبان کے ذریعے یا طالبان نواز ٹولوں کے ذریعے پاکستان کے سیاسی دروازے سے داخل ہوکر پاکستان کے ایٹم بم کو "دین اسلام” کے خلاف استعمال کریں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ماضی میں انہوں نے روس کے خلاف جہادِ اسلامی کے نام پر مسلمانوں کا اعتماد حاصل کیا اور پھر اسی جہاد کی خاطر خریدے گئے اسلحے سے آج تک مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔
شکست اور ذلت و رسوائی سے دوچار استعماری طاقتیں اس وقت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے چہرے سے اس تاریخی شکست و رسوائی کے داغ دھوئیں۔ اس وقت ان کے پاس واحد حل یہی ہے کہ کم از کم پاکستان کے محاذ میں کامیابی حاصل کریں اور پھر یہاں سے اپنے مفادات کو آگے بڑھائیں۔ وہ اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کو بھی توڑنا چاہتے ہیں۔ ابھی تازہ خبر ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کے نام پر تشکیل دیا جانیوالے والا اتحاد متحدہ دینی محاذ کے نام سے میدانِ سیاست میں اتر آیا ہے۔ اس دینی محاذ کے منشور کے مطابق پاکستان کے صدر مملکت، وزیراعظم، چیف جسٹس، چیئرمین سینٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، تمام مسلح افواج کے سربراہان، چاروں صوبوں کے گورنرز، وزرائے اعلٰی، چیف جسٹس اور حساس اداروں کے سربراہوں کا مرد اور سنی العقیدہ مسلمان ہونا لازمی ہوگا۔
اس منشور کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستان کے شیعوں کو مشتعل کیا جائے، تاکہ وہ بھی ان عہدوں کے لئے صرف اور صرف شیعہ ہونے کا مطالبہ کریں۔ آج نہیں تو کل سہی اسی مطالبے کی بنیاد پر خون بہے، لوگ ایک دوسرے سے متنفر ہوں اور ملک ٹوٹے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 1971ء میں پاکستان کو توڑنے کے لئے بھی یہی نسخہ آزمایا گیا تھا، فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت انہی پوسٹوں پر بنگالی اور پنجابی کو لڑایا گیا تھا اور آج شیعہ اور سنّی کو لڑانے کے لئے میدان گرم کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں استعماری ٹولے گذشتہ کئی سالوں سے مساجد اور امام بارگاہوں میں قتل وغارت کرکے شیعوں اور سنّیوں کے درمیان معرکہ آرائی کروانے کی کوشش میں مصروف ہیں، لیکن اب تک الحمداللہ مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں۔ ہماری باشعور ملت نے فرقہ واریّت کی کسی بھی چال کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ لہذا اب دشمن سیاست کی تلوار سے اس ملک کے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔
اب ذرا ٹھرئیے اور ان سازشی عناصر کو اور زیادہ قریب سے پہچانیے، ماضی پہ نہ جائیے، موجودہ حالات پر تحقیق کیجئے، تحقیق کے دروازے تو سب کے لئے کھلے ہیں۔ اگر آپ۔۔۔ ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔ اگر آپ۔۔۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ختم النبیین مانتے ہیں، اگر آپ۔۔۔ قرآن کو اللہ کی آخری کتاب مانتے ہیں تو پھر۔۔۔ آپ تحقیق کریں کہ کیا یہ "متحدہ دینی محاذ” بنانے والے خود سنّی ہیں۔ جب آپ تحقیق کریں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ لوگ تو خود سنّی نہیں ہیں، بلکہ ان کے نزدیک تو سنّی بھی کافر ہیں۔ میں کئی سالوں کی پرانی کتابوں کی باتیں نہیں کرتا کہ انہوں نے اہلِ سنت والجماعت کے خلاف کیا کیا فتوے دئیے۔ گڑھے ہوئے مردے اکھاڑنے کے بجائے آپ ابھی ان کی ویب سائیٹس کا مطالعہ کر لیجئے، یہ اولیاءِ کرام کے مقدس مزارات کو شرک کے مراکز کہتے ہیں اور ان مزارات پر حاضری دینے والوں اور نذر چڑھانے والوں کو مشرک کہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب تک شہید ہونے والے سنّی مفکرین اور علماء کرام کے قتل کے پیچھے انہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔ قاری سعید چشتی شہید کے خون سے لے کر داتا دربار تک بے گناہ مارے جانے والے سارے سنیوں کا خون انہی کی گردنوں پر ہے۔ اس کے علاوہ اہلِ سنّت کی مساجد پر قبضے کی تو فی الحال بات ہی نہ چھیڑیں، وہ خود سے ایک مستقل موضوع ہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔۔۔؟ اگر آپ انہیں پہچاننا چاہیں تو ان کی تاریخ کا تجزیہ و تحلیل کرکے دیکھئے۔ یہ ہر دور میں نہتے مسلمانوں کے خلاف استعمار کے ہمرکاب رہے ہیں۔ ہمفرے کی یاداشتیں اور لارنس آف عریبیہ کا دور ایک طرف، آپ صرف تاریخ پاکستان کو اٹھا کر دیکھئے۔ برّصغیر میں انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تو انہیں سب سے زیادہ خطرہ بھی مسلمانوں سے ہی تھا۔
ایسے میں جب ہندو اور انگریز مسلم کشی پر متحد ہوگئے اور مسلمان اپنے لئے ایک لگ ملک بنانے پر مجبور ہوئے تو ان غداروں نے تاریخ کے اس نازک موڑ پر بھی نہتے اور کچلے ہوئے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ اس وقت بھی مسلمانوں کے خلاف انگریزوں اور ہندووں کے ہم عقیدہ تھے۔ انہوں نے اس وقت بھی تحریکِ آزادی کے مجاہدین کو "غنڈے”، پاکستان کو "کافرستان” علامہ اقبال رہ کو "دیوانہ” اور قائداعظ
م کو” کافر اعظم”کہا اور آج بھی پاک فوج کو "ناپاک فوج” کہتے ہیں۔ پوری تحریک پاکستان کے دوران یہ پاکستان اور قیام پاکستان کے خلاف سرگرمِ عمل رہے۔ ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود شیعوں اور سنیوں نے مل کر اور متحد ہو کر پاکستان بنایا۔ بعد ازاں جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے پھر بھی پاکستان کی دشمنی نہیں چھوڑی، پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ملت پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔
یہ ضد کی بات ہی نہیں۔ دل سے شک کو نکالئے، جائیے غیرجانبدارانہ تحقیق کیجئے۔ آج بھی جتنے دہشت گرد گروہ اور ٹولے ہیں، وہ چاہے عراق میں ہوں یا شام میں، افغانستان میں ہوں یا پاکستان میں، جو شیعوں اور سنیوں دونوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں، خودکش دھماکے کر رہے ہیں، لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں، ان سب ٹولوں کے روحِ رواں یہی لوگ ہیں۔ یہ اپنے تمام تر جبر و تشدد کے باوجود دنیا بھر میں ہار چکے ہیں۔ دنیا بھر میں شکست کھانے کے بعد اب یہ ہم پر ایک بڑا سیاسی حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے دشمن اب سیاست کی تلوار سے شیعہ اور سنّی کی بنیاد پر پاکستان کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ اب کوئی خواہ شیعہ ہو یا سنّی، پاکستان بنانے والوں کو اس مرتبہ مل کر پاکستان بچانا ہوگا۔ ہمیں ہر صورت میں متحد ہونا پڑے گا، اس لئے کہ شکست خوردہ دشمن اور زخمی سانپ بہت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔