شامی فوج نے حلب پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا، شہریوں کا بھرپور جشن
شیعیت نیوز: شامی افواج نے شمالی شہر حلب پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ شامی افواج نے حلب کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے تین ہفتے قبل بھرپور آپریشن شروع کیا تھا۔ پریس ٹی وی نے خبر دی ہے کہ حکومت شام کے مخالف نام نہاد انسانی حقوق کے مرکز نے حلب پر شامی افواج کا مکمل کنٹرول ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ انسانی حقوق کے مرکز کے سربراہ رامی عبدالرحمن نے بتایا ہے کہ دہشت گردوں نے حلب کے مشرق میں چھے علاقوں سے پسپائی اختیار کرلی ہے۔ شام سے متعلق انسانی حقوق کے مرکز کے سربراہ نے کہا ہے کہ حلب میں شامی افواج کا آپریشن مکمل ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے شامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ حلب کے اٹھانوے فیصد علاقے آزاد کرا لئے گئے ہیں۔ شامی ذرائع کے مطابق فوج نے شیخ سعید اور الصالحین جیسے محلوں کو آزاد کرانے کے ساتھ کرم الدع اور الفردوس الجلوم کی جانب پیشقدمی شروع کر دی ہے اور دہشت گرد عناصر بڑی تعداد میں حلب سے فرار کر رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ دو ہزار سے زائد دہشت گردوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں، جبکہ ایک لاکھ عام شہری حلب کے مشرقی علاقوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں، جن کے مطابق شہر حلب کے جنوبی علاقوں میں لوگ خوشی سے سٹرکوں پر نکل آئے ہیں، ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں اور باغی دہشتگردوں کے خلاف شامی فوج کی شاندار فتح کا جشن منا رہے ہیں۔
دیگر ذرائع کے مطابق شام کے شہر حلب کے مرکزی ضلعے پر کنٹرول قائم کرنے کے بعد شامی فوج باغیوں کو شہر کے مشرق میں مختصر حصے تک محدود کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، باغیوں کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے کے 90 فیصد حصے پر شامی صدر بشارالاسد کی فوج اپنا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ حلب کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم کے مطابق شامی فوج جلد ہی پورے شہر کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ حلب سے قبضہ ختم ہو جانا 2011ء کے دوران شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے اب تک شامی باغیوں کی سب سے بڑی ناکامی ہوگی، جس کے بعد شامی حکومت ملک کے 5 اہم شہروں میں اپنا کنٹرول دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ شام میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق، شامی فوج حلب کے جنوب مشرق میں واقع شیخ سعید نامی ضلعے پر کنٹرول حاصل کرچکی ہے، جس کے بعد شیخ سعید کے اطراف میں موجود صرف دو علاقوں پر باغیوں کا کنٹرول باقی بچا ہے۔
برطانوی تنظیم کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمٰن کے مطابق، باغیوں کے قبضے میں موجود علاقے بہت چھوٹے ہیں اور ان کو کبھی بھی خالی کرایا جاسکتا ہے۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ حلب کی جنگ اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہونے لگی ہے۔ شامی میڈیا نے بھی شیخ سعید نامی علاقے پر فوج کے کنٹرول کی تصدیق کر دی ہے۔ حلب کے حکومتی کنٹرول میں موجود علاقے میں موجود فرانسیسی خبر رساں ادارے کے رپورٹر کے مطابق، گذشتہ دنوں میں بمباری کی مسلسل آوازوں سے شہر گونجتا رہا۔ 15 نومبر کے بعد سے شامی فوج کی حلب کے اطراف میں موجود علاقوں میں پیش رفت کے بعد سے خوف زدہ شہریوں کی بڑی تعداد علاقہ چھوڑ چکی ہے۔ مبصر تنظیم کے مطابق، گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 10 ہزار افراددہشتگردوں کے قبضے میں موجود علاقوں سے نکل گئے ہیں، جس کے بعد حکومتی کنٹرول میں موجود علاقوں میں لوگوں کی تعداد کم ہو کر صرف 1 لاکھ 30 ہزار باقی بچی ہے۔
بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے (یونیسیف) کے مطابق حلب کے تمام بچے سخت صدمے کا شکار ہیں۔ یونیسیف کے نمائندے رڈاسلو زیہاک جو شہر کے تباہ شدہ حصے میں موجود ہیں، بتاتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی سنگین صورتحال آج تک نہیں دیکھی، جیسی حالت حلب میں موجود بچوں کی ہے۔ واضح رہے کہ شام میں جاری اس خانہ جنگی کے حل کے لئے سفارتی کوششیں مسلسل ناکام ہوتی رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے روس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ حلب میں جنگ بندی اور شہر سے مسلح باغیوں کو باہر نکالنے کے لئے امریکی حکام سے بات چیت جاری ہے، لیکن ان اعلٰی سطح کی بات چیت کے باوجود جنگی صورتحال کم نہ ہوسکی۔ شام میں گذشتہ 5 سال سے جاری خانہ جنگی کے باعث ملک کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں فوج اور مسلح گروپوں کے درمیان جاری لڑائی کے باعث یہاں کے عوام شدید کرب میں مبتلا ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی اور غیر ملکی فورسز کے حملوں میں اب تک 3 لاکھ سے زائد شہری ہلاک جبکہ لاکھوں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا مجبور کئے گئے ہیں۔ ادھر فضائی کارروائیوں سے بچنے کے لیے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں شہری مہاجر کیمپوں میں بے سر و سامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کیمپوں میں نہ صرف ادویات بلکہ خوراک کی بھی شدید کمی ہے، جبکہ اس اذیت ناک زندگی سے بچنے کے لئے کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کا رخ کرنے والے مہاجرین کی کثیر تعداد سمندر کی نذر ہوچکی ہے۔