ریفامز کی ضرورت ہے ،ہم لانگ مارچ کی مکمل حمایت کرتے ہیں لیکن بھر پورعوامی شرکت کچھ امور کی متقاضی ہے
موجودہ ملکی صورت حال اور خاص کر ایک جامع ریفارم کے لئے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی جانب سے لانگ مارچ کی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے واضح حمایت کے بارے میں سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا مجلس وحدت کے میڈیا سیل کے لئے خصوصی انٹریوسے چند اقتباسات (مکمل انٹریو عنقریب شائع کیا جائے گا )
سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اپنے انٹریو میں کہا کہ
پانچ سال میں جمہوری حکومت نے عوامی ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا ،ہم بھی انہی مسائل کا تذکرہ کرتے آئے ہیں جنکا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے ۔
پاکستان میں چند سیاسی خاندانوں کی حکومت ہے جو ملک کو لوٹنے کے لئے الیکشن لڑتے ہیں ان کی کوشش ہے کہ سیاسی میدان ہمیشہ انہی کے پاس رہے
بیروز گاری ،امن و امان ،غیر ملکی مداخلت ،انرجی کے مسائل ،ملک میں ایک جامع ریفامز کی ضرورت یہ مسائل سب کیلئے مشترکہ ہیں ہم ریفارم کے حوالے سے لانگ مارچ کی حمایت کرتے ہیں اس آواز کوعوام تک پہنچنا چاہیے اگر موجودہ سیاسی جماعتیں عوام کی حامی ہیں تو پھر انہیں اس آواز کی حمایت کرنی چاہیے
علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی مخالف غیر قانونی طور پر قوت اختیارکرنے والے ،کالعدم جماعتیں اور سیاسی مافیا کررہا ہے
میدان میں حاضر رہے بغیر، ثابت قدمی کے بغیر یہ نظام تبدیل نہیں ہوسکتا ،موجود نظام نے پڑھے لکھے لوگوں تک کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔
مجلس وحدت مسلمین گذشتہ چند سالوں سے میدان میں حاضر ہے اور تمام مظلوم طبقے کی حمایت کرتی ہے ہم نے اس سال کو ہی میدان میں حاضری کا سال قراردیا ہے ۔
انہوں نے علامہ طاہر القادری کی جانب سے لانگ مارچ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے عوامی شرکت کے بارے میں کہا کہ ،موجود لانگ مارچ میں بھر پور شرکت کچھ چیزوں کا متقاضی ہے جیسے ہم اپنی کابینہ اور شوری عالی میں پیش کریں ،جیسے لانگ مارچ کو منطقی انجام تک پہنچانے ،پالیسی کی ترتیب مذاکراتی ٹیم وغیرہ جیسے مسائل میں اشتراک عمل ایک اہم چیزہے ۔ہم اس لانگ مارچ کا دل سے حامی ہیں ،لیکن بعنوان جماعت بھر پورعوامی شرکت کے لئے مکمل شرائط کا فراہم ہونا بھی ایک ضروری اور منطقی امر ہے
انہوں نے مزید کہا کہ باربار کے مارشل لا نے سیاسی قومی اور معاشرتی طاقت کے توازن کو بگاڑ دیا ،خاص کر ضیا الحق کے مارشل لاکیوجہ سے طاقت کا یہ توازن مزید بگڑ گیا
ملک کی وحدت اور اتحاد بگڑ گیا، روس کے سسٹم کو تباہ کرنے کے لئے ملک میں ایک خاص مسلک کے لوگوں کوحد سے زیادہ طاقتور بنایا گیا اور یہی سے انتہاء پسندی نے بھی جنم لیا اور اسی مخصوص مذہبی سوچ کو سیاسی اور معاشرتی طور پر بھی طاقتور کیا گیا ،اہل تشیع اور بریلوی اہلسنت بھی انہی انتہاپسندوں کا نشانہ بنے اور بن رہے ہیں،ملک کو بنانے والے ملک میں مظلوم بن گئے ۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ دیگر مسالک کی نسبت اہل تشیع اور بریلوی اہلسنت نے مسلکی سیاست نہیں کی اب وقت آیا ہے کہ ملک کوبنانے والی ان اصل دونوں قوتوں کو ملک بچانے کے لئے بھی میدان سیاست میں آنا ہوگا
ملک کے مسائل اس وقت ختم ہوسکتے ہیں جب طاقت کے اس بگڑے ہوئے توازن کو بیلنس پر لایا جائے